’’بیس روپے من ہوگیا آٹا‘‘

2454

آٹے کے ہوشربا نرخ دیکھ کر بے اختیار صدر جنرل ایوب خان کا زمانہ یاد آگیا۔ اُس زمانے میں 8 سال تک اشیائے صرف کی قیمتیں مستحکم رہیں، ان میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ آٹا 18 روپے فی من کے حساب سے فروخت ہورہا تھا اور 8 سال تک اس کی یہی قیمت برقرار رہی۔ 8 سال بعد آٹے کی قیمت میں 2 روپے فی من کا اضافہ ہوا تو پورے ملک میں بے چینی پھیل گئی۔ لوگ دبے منہ مہنگائی کی شکایت کرنے لگے تاہم اس بے چینی نے عوامی احتجاج کی شکل اختیار نہ کی اور بالعموم پورے ملک میں خاموشی طاری رہی۔ اس پر انقلابی شاعر حبیب جالب تڑپ اُٹھے۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ایک نظم لکھی جس کا ٹیپ کا بند یہ تھا۔
بیس روپے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا!!
صدر ایوب زندہ باد
جالبؔ جب اپنی یہ نظم جلسوں میں پڑھتے تو عوام کے جذبات بھڑک اُٹھتے اور فضا صدر ایوب کے خلاف پُرجوش نعروں سے گونج اُٹھتی اور جس سناٹے کی وہ شکایت کرتے تھے وہ ایک چھناکے سے ٹوٹ جاتا۔ جالبؔ نے اپنی نظم کے ذریعے عوام کے جذبات کو اس قدر مشتعل کردیا کہ چینی کی قیمت میں چار آنے فی سیر اضافہ ان کے لیے ایک تازیانہ ثابت ہوا اور وہ بے قابو ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور ایوب حکومت جو ’’عشرئہ ترقی‘‘ منانے کی تیاری کررہی تھی اس عوامی احتجاج میں ڈوب گئی۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم ایک دو باتوں کی وضاحت کردیں۔ کرنسی اور ناپ تول کا موجودہ اعشاری نظام اگرچہ صدر ایوب کے زمانہ آخر میں رائج ہوگیا تھا تاہم ان کے پورے دور حکومت میں روپے پیسے اور ناپ تول کا پرانا برطانوی نظام ہی چلتا رہا۔ روپے میں چونسٹھ پیسے اور سولہ آنے ہوتے تھے۔ ایک آنے کا سکہ چار پیسے کے برابر تھا اور اسے اکنّی کہتے تھے۔ اکنّی سے بڑی دونیّ، چونیّ اور اَٹھنّی ہوتی تھی اور یہ سارے سکّے اپنی قدر و قیمت رکھتے تھے اور ان کے ذریعے خرید و فروخت ہوتی تھی۔ فلور ملیں ایک من آٹے کا توڑا بازار میں فروخت کرتی تھیں۔ اُس زمانے میں کلو کی جگہ سیر کے باٹ رائج تھے اور دس یا بیس سیر آٹے کے تھیلے کا رواج نہ تھا۔ البتہ کھلا آٹا عام فروخت ہوتا تھا اور اس کا نرخ آٹھ آنے فی سیر تھا۔ اندازہ کیجیے جو آٹا آج ستر روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے وہ ایوب خان کے دور میں آٹھ آنے میں ملتا تھا اور لوگ اسے بھی مہنگا سمجھتے تھے۔
ہمیں یاد ہے کہ جب ایوب آمریت کے خلاف بحالی جمہوریت کی تحریک چلی تو اپوزیشن جماعتوں نے عوام کو متحرک کرنے کے لیے مہنگائی کو بنیادی ایشو قرار دیا۔ اس زمانے میں ڈالر پانچ یا چھ روپے کا تھا۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ ڈالر اتنا مہنگا کیوں ہے اسے تو پاکستانی روپے کے برابر ہونا چاہیے وہ اسے ایوب حکومت کی غلط معاشی پالیسی کا نتیجہ قرار دیتی تھی۔ اس زمانے میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے عالمی بینک سے قرضہ لینے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا اور یہ قرضہ آٹھ دس لاکھ ڈالر سے زیادہ نہ تھا لیکن اپوزیشن نے آسمان سر پہ اُٹھا رکھا تھا اور اس کے لیڈر جلسوں میں دُہائی دے رہے تھے کہ بیرونی قرضہ لے کر حکومت نے پاکستان کو گروی رکھ دیا ہے اور اس کی آزادی سلب ہو کر رہ گئی ہے۔ سی او پی (کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز) کے زیر اہتمام ملک میں بڑے بڑے جلسے ہورہے تھے جن میں اپوزیشن لیڈر مہنگائی کو موضوع بنا کر ایوب حکومت کو بُری طرح رگید رہے تھے۔ یہ جلسے بالعموم عشا کے بعد شروع ہوتے اور رات گئے تک جاری رہتے سرگودھا یا شاید جھنگ میں کونسل مسلم لیگ کے رہنما نوابزادہ افتخار احمد انصاری کی زیر صدارت جلسے کے واحد مقرر سید مودودیؒ تھے انہیں سننے کے لیے ایک خلقت اُمڈ آئی تھی، ہم بھی جلسے کی رپورٹنگ کے لیے سید صاحب کے قافلے کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچے۔ سید مودودی کے اسٹیج پر پہنچتے ہی تلاوت کلام پاک کے ساتھ ہی جلسے کی کارروائی شروع ہوگئی۔ نوابزادہ افتخار احمد انصاری نے مائیک پر آکر سید مودودی کو خطاب کی دعوت دی۔ سید مودودی نے اپنے خطاب کا آغاز غالبؔ کے اس شعر سے کیا:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
سید صاحب اپنی تقریروں میں شعر کا استعمال شاذ ہی کرتے تھے یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز ایک شعر سے کیا تھا، پھر انہوں نے حکومت کی قرض پالیسی اور اس کی فاقہ مستی پر مفصل خطاب فرمایا اور سامعین پورے سکون سے سید صاحب کا خطاب سنتے رہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مہنگائی اُس زمانے میں بھی ایک بڑا ایشو تھی جس پر قومی رہنما ٹھوس دلائل کے ساتھ حکومت پر تنقید کرتے تھے۔ حالاں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اُس زمانے کی مہنگائی پر غور کیا جائے تو مہنگائی سرے سے تھی ہی نہیں، نہایت سستا زمانہ تھا اتنا سستا کہ یہ ساری باتیں اب خواب و خیال لگتی ہیں۔
مہنگائی کا اصل ریلا 1971ء کی پاک بھارت جنگ اور سقوط مشرق پاکستان کے بعد آیا جب باقی ماندہ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا۔ انہوں نے صنعتوں اور کارخانوں کو قومیانے کی پالیسی اختیار کی تو ملک میں مہنگائی کا سیلاب آگیا۔ ہمیں یاد ہے کہ صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے سے پہلے بناسپتی گھی بازار میں چار روپے کلو فروخت ہورہا تھا۔ گھی کی صنعت کو قومیانے کے بعد بازار میں اس کی قیمت دوگنا ہوگئی۔ بھٹو نے ملک میں راشن بندی کا نظام قائم کرکے پوری قوم کو قطار میں لگادیا۔ آٹا، چینی اور بناسپتی گھی راشن ڈپو پر ملنے لگا، اس طرح اِن اشیا کی بلیک مارکیٹنگ اور اسمگلنگ کو فروغ حاصل ہوا اور قوم ایک عذاب میں مبتلا ہوگئی۔ خدا خدا کرکے یہ دور ختم ہوا تو عوام نے سُکھ کا سانس لیا۔ جنرل ضیا الحق کی فوجی آمریت میں لاکھ خامیاں سہی مہنگائی بہرکیف قابو میں تھی۔ راشن ڈپو کا نظام ختم ہوچکا تھا اور آٹے سمیت تمام ضروری اشیا بازار میں آسانی دستیاب تھیں۔ فوجی آمریت ختم ہوئی اور انتخابات کے ذریعے سول حکومتیں قائم ہوئیں تو پھر مہنگائی کا سیلاب اُمڈ آیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار حکومت میں عوام ہنگائی کی چکی میں پستے رہے لیکن ان کی قوتِ خرید برقرار تھی اور گزارہ چل رہا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور کو ہم نظر انداز کرتے ہیں کہ وہ ایک غاصب حکومت تھی۔ اب عمران خان کی جو ’’منتخب حکومت‘‘ آئی ہے اس نے تو ہوش ہی اُڑا دیے ہیں۔ مہنگائی روزانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ ایک افراتفری مچی ہوئی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں سرے سے کوئی حکومت ہی نہیں ہے، بس لوٹ مار کا عالم ہے اندازہ کیجیے جو آٹا ایوب خان کے دور میں آٹھ آنے سیر بک رہا تھا اب ستر روپے کلو فروخت ہورہا ہے اور اس کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں عوام کی قوت خرید کہاں برقرار رہ سکتی ہے۔ بس جی چاہتا ہے کہ پرانا دور پھر واپس آجائے۔
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو