امریکا کی دوستی دشمنی سے زیادہ خطرناک

1128

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں گزشتہ منگل کو سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ایک اہم ملاقات ہوئی ہے۔ عمران خان عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈیووس گئے ہوئے ہیں اور پاکستان کے وقت کے مطابق بدھ کی رات گئے ان کا خطاب بھی ہے۔ ڈونلنڈ ٹرمپ خطاب کرچکے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ انہوں نے دوسرے ممالک میں جو بھی اقدامات کیے ہیں وہ امریکا کے تحفظ کے لیے کیے ہیں۔ اپنے ملک کا تحفظ کرنا ہر حکمران کی بنیادی ذمے داری ہے لیکن امریکی حکمرانوں نے یہ ذمے داریاں دوسرے ممالک کو عدم تحفظ کا شکار کرکے پوری کی ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ ایسے تمام جارحانہ اقدامات سے امریکا کا تحفظ مزید خطرات کا شکار ہوا ہے۔ امریکی حکمرانوں نے بش سے لے کر ٹرمپ تک امریکی فوج کو کمزور ممالک میں تباہی پھیلانے کے لیے استعمال کیا جس کے نتیجے میں امریکی فوج کا بھی جانی نقصان ہوا۔ کھربوں ڈالر ضائع کرنے کے باوجود امریکا کو کہیں بھی حتمی اور فیصلہ کن کامیابی نہیں مل سکی۔ کوریا اور ویتنام کی طویل جنگیں تو قصہ پارینہ ہوئیں جن میں لاکھوں افراد قتل کر دیے گئے لیکن افغانستان اور عراق پر چڑھائی تو زیادہ پرانی بات نہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ٹرمپ نے آتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان اور عراق سے فوجیں نکال لیں گے لیکن ابھی تک تو ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ عراق سے فوج نکالنے کی یہ شرط رکھی ہے کہ پہلے وہ رقم ادا کی جائے جو امریکا نے عراق کے ہوائی اڈوں اور دیگر تنصیبات پر خرچ کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی درخواست کس نے کی تھی۔ یہ سب تو امریکا نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا ہے۔ افغانستان میں تو بھارت نے بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور وہ نہیں چاہے گا کہ اس کے مفادات کا محافظ امریکا وہاں سے نکلے۔ اور پاکستان کے مقتدر حلقے بھی یہ نہیں چاہتے کہ امریکا افغانستان سے نکلا تو افغان پاکستان پر چڑھ دوڑیں گے۔ ڈیووس میں ٹرمپ عمران ملاقات کے دوران امریکی صدر نے عمران خان کو اپنا دوست قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہم پاکستان کے اتنے قریب نہیں تھے جتنے اب ہیں۔ امریکا سے دوستی جی کا جنجال ہے۔ خود امریکی دانشور اور امور خارجہ کے ماہر ہنری کیسنجر نے کہا تھا کہ امریکا کی دوستی اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے لیکن شاید عمران خان ٹرمپ سے دوستی پر فخر کرتے ہوں۔ اس سے پہلے بھی ایک ملاقات میں ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرانے کا اعلان کیا تو عمران خان اور ان کے حواریوں نے بڑی بغلیں بجائی تھیں اور اسے بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ ٹرمپ نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر کردار ادا کرنے کی پیشکش کردی۔ کئی ماہ پہلے کی گئی ثالثی کی پیشکش کا کیا ہوا؟ بھارت نے تو ثالثی یکسر مسترد کردی اور ٹرمپ بھارت کو ناراض نہیں کرسکتا خواہ عمران خان سے دوستی کا دعویٰ ہو۔ ویسے بھی فرد واحد سے دوستی کا مطلب کسی قوم اور ملک سے دوستی نہیں ہوتا۔ اسے عمران خان کی سادگی کہیں یا کیا کہ پھر ٹرمپ سے درخواست کردی کہ بھارت سے معاملات حل کرائیں۔ اور ٹرمپ کہتے ہیں کہ ہم تیار ہیں۔ ٹرمپ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ کشمیر پر ہونے والی پیش رفت بغور دیکھ رہے ہیں۔ اس پر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ دیکھ تو رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ اسے تو دنیا دیکھ رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا سمیت اس بے حس دنیا نے عملاً کیا کیا ہے۔ ان میں مسلمان ممالک بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب بھارت سے تجارتی تعلقات اور سرمایہ کاری کو بڑھا رہا ہے۔ کشمیری مسلمان مر رہے ہیں تو مرتے رہیں ورنہ بھارت کو صرف ایک دھمکی کافی تھی کہ بنیا مالی نقصان برداشت نہیں کر سکتا۔ عمران خان کے دوست ٹرمپ کے ہاتھ تو فلسطینیوں کے خون سے بھی رنگین ہیں اور اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اس میں امریکا کی پشت پناہی کا دخل ہے۔ وہی کچھ بھارت کشمیر میں کر رہا ہے۔ ٹرمپ اسے بھی بغور دیکھتے رہیں گے۔ ادھر وزیراعظم عمران خان امریکا اور ایران، سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح صفائی کرانے چلے ہیں، یہ جانے بغیر کہ ان کا اپنا وزن کیا ہے۔ ملک کے اندر عمران خان لڑائی جھگڑوں اور مخالفین کو چور، ڈاکو، لٹیرا اور بدعنوان کہنے میں مصروف ہیں۔ ملک کے اندر یہ رویّہ ہے اور چلے ہیں بین الاقوامی سطح پر کردار ادا کرنے۔ گھر کے اندر ان کی ساکھ انتہائی خراب ہو چکی ہے اور ان کے اپنے بھی نئے محاذ بنا رہے ہیں۔ ایران، امریکا اور سعودی عرب کی فکر چھوڑ کر گھر کی فکر کریں۔