پی آئی اے کی زبوں حالی

760

عدالت عظمیٰ نے قومی فضائی کمپنی کے سربراہ کو کام کرنے سے روکنے کے سندھ ہائی کورٹ کے حکم کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کی پی آئی اے میں شمولیت کے معاملے کوپی آئی اے کی نجکاری کے معاملے سے منسلک کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے سماعت کے دوران جو ریمارکس دیے ہیں وہ قابل غور ہیں ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خود ڈیپوٹیشن پر آنے والے سی ای او نے 4 ائر وائس مارشل، 2 ائر کموڈور، 3 ونگ کمانڈر اور ایک فلائٹ لیفٹیننٹ کو ڈیپوٹیشن پر بھرتی کیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ شاہین ائرلائن تو آپ سے چلی نہیں اور چلے ہیں پی آئی اے چلانے۔پی آئی اے کے موجودہ چیف ایگزیکٹو آفیسر پاک فضائیہ کے نائب سربراہ ہیں اور انہیں ڈپوٹیشن پر قومی فضائی کمپنی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے ۔ ان کی تعیناتی کے پہلے روز سے ہی اس تقرر پر تنقید جاری ہے ۔صرف پی آئی اے ہی نہیں ، ہر سرکاری ادارے کی یہی صورتحال ہے کہ وہاں پر حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسران کا اہم اسامیوں پر تقرر جاری ہے جس کی وجہ سے ہر جانب تجربے جاری ہیں اور ادارے تباہی کا شکار ہیں ۔ اس ضمن میں پی آئی اے کی مثال دیگ کے چاول کی طرح ہے جس سے صورتحال کا درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ کمرشیل ایوی ایشن اور فوج ایوی ایشن ہر لحاظ سے دو مختلف مہارت کے حامل ادارے ہیں ۔ جس طرح سے کمرشیل ایوی ایشن کا ماہر فوجی ایوی ایشن کو نہیں چلا سکتا ، بالکل اسی طرح فوجی ایوی ایشن کا ماہر کمرشیل ایوی ایشن کو چلانے کا اہل نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ فوجی طیارے اڑانے والا ماہر پائلٹ مسافر طیارے بغیر مناسب تربیت حاصل کیے نہیں اڑا سکتا اور فوجی ائر ٹریفک کنٹرولر شہری ہوابازی کی ٹریفک کو کنٹرول نہیں کرسکتا ۔ اس کے باوجود قومی فضائی کمپنی میں شہری ہوابازی سے نابلد افراد کی تعیناتی پر حیرانی ہی ظاہر کی جاسکتی ہے ۔ دنیا بھر کی فوج میں اپنے اپنے شعبہ جات میں ماہر افراد موجود ہوتے ہیں مگر کہیں پر بھی انہیں غیر متعلقہ شعبہ جات میں تعینات نہیں کیا جاتا اور نہ ہی فوج اپنے شعبہ کے علاوہ دیگر معاملات میں دلچسپی لیتی ہے ۔ پاکستان میں فوج شادی ہال بھی چلارہی ہے ، جھیلوں میں مچھلی پکڑنے کے ٹھیکے بھی دے رہی ہے ، کمپنیاں بھی چلارہی ہے ، بینک بھی چلارہی ہے ، ہاؤسنگ اسکیمیں بھی چلارہی ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔ اس سے یقینا فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت متاثر ہوتی ہے ۔ اس طرح کے مسائل کا بہترین حل جس کا کام اسی کو ساجھے ہی ہے ۔ بہتر ہوگا کہ تمام ہی ادارے اپنی حدود میں کام کریں ۔ سرطان کا مرض انتہائی خطرناک اور جان لیوا بیماری ہے ۔ اس بیماری میں کسی بھی عضو کے خلیے مخصوص تعداد سے بڑھ جاتے ہیں جو بالآخر مریض کی جان لے لیتے ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بھی ادارے یا شخص کا اپنی حد سے تجاوز کرنا کہیں سے بھی ملک کے لیے بہتر نہیں ہے ۔