اور اب چینی کا بحران

685

پورے ملک میں آٹے کا بحران تو جاری ہی تھا ، اب چینی کا بحران بھی شروع ہو گیا ہے۔ آٹے اور چینی کا ذکر ہی کیا ، ہر شے کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں ۔ دالیں ،چاول، مصالحہ جات ، سبزیاں ، چائے کی پتی ، دودھ کون سی چیز ایسی ہے کہ جس کی قیمت میں کئی گنا اضافہ نہیں کردیا گیا ہے ۔ دوائیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں اور ان کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ا س کے جواب میں شہریوں کی تنخواہیں تو کیا بڑھائی جاتیں ، انہیں بے روزگاری کا تحفہ دیا گیا ۔ اب تو معاملات واضح ہوگئے ہیں کہ ملک میں آٹے کا بحران تھا نہیں بلکہ پیدا کیا گیا ہے ۔ اسے عمران خان نیازی کی حکومت کی ناکامی کہا جائے یا بیڈ گورنس کہ آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور انہیں عبرتناک سزا دینے کے بجائے کہا جارہا ہے کہ ملک بھر میں سستے آٹے کے اسٹال لگائے جائیں گے اور اسے ہی حکومت کی کامیابی قرار دیا جارہا ہے ۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں، چور بازاری کرنے والوںکے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے چند مقامات پر سستے آٹے کے اسٹال لگانے کا مطلب واضح ہے کہ یہ ذخیرہ اندوز سرکار کی صفوںمیںشامل ہیں ۔ شوگر مافیا کے بارے میں تو سب ہی جانتے ہیں کہ درجنوں شوگر ملوں کے مالک تو صرف زرداری اور شریف خاندان ہی ہیں ۔بقیہ شوگر ملوں کے مالکان حکومت میں بیٹھے ہیں یا پھر بااثرکلب کا حصہ ہیں ۔پاکستان میں گنّے کا کرشنگ سیزن سرکاری طور پر نومبر میں شروع ہوجانا چاہیے مگر شوگر ملوں کے مالکان نے جنوری تک گنے کی کرشنگ شروع نہیں کی ، اس کا جواب ان ملوں کے مالکان سے نہ صرف طلب کیا جانا چاہیے بلکہ اس پر انہیں بھاری جرمانہ بھی کیا جانا چاہیے ۔ گنّے کی کرشنگ بروقت شروع نہ کرنے کا دو طرفہ نقصان ہوا ہے ۔ سب سے پہلے تو کاشتکار مارے گئے کہ ان کی پیداوار بروقت فروخت نہیں ہوسکی اور گنا سوکھنے سے وزن کم ہونے کی وجہ سے انہیں بھاری مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ۔ چنانچہ پورے پاکستان کے باسیوں کو چینی کی اضافی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے جبکہ اس کا فائدہ چند سو مالکان اٹھارہے ہیں ۔ تاہم اس پر بھی سرکار خاموش ہے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے جیسے نعروںکی گردان جاری ہے ۔ سرکار میں بیٹھے ہوئے تمام ہی معاشی دانشور جانتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزی کو روکنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ گوداموں پر چھاپا مارا جائے یا پھر ریٹیل میں فروخت کرنے والے دکانداروں کو گرفتار کرکے ان پر بھاری جرمانے عاید کیے جائیں ۔ جتنے بھی بڑے ذخیرہ اندوز ہوتے ہیں ، انہوں نے اپنی اجناس کے ذخیرہ کے عوض بینکوں سے کروڑوں روپے کے قرض حاصل کیے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ ذخیرے بینکوں کے پاس گروی ہوتے ہیں ۔ چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی کو روکنے کاآسان ترین طریقہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان تمام بینکوں کو ہدایت جاری کرے کہ چینی اور گندم کے عوض جاری کیے گئے قرض واپس لے لیے جائیں گے۔ جیسے ہی بینک قرض واپس لینے کے نوٹس جاری کرتے ہیں ، یہ ذخیرہ اندوز اپنے ذخیرے کو مارکیٹ میں فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ بینک کا قرض واپس کرسکیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام طریقوں کوجانتے بوجھتے سرکار میں بیٹھی ہوئی مافیا کوئی موثر اقدام کرنے کے بجائے یا تو زبانی توپیں چلاتی رہتی ہے یا پھر سستے آٹے کے اسٹال جیسے نمائشی اقدامات کرکے لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے ۔ عمرا ن خان نیازی بھی اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان کو لانے والے سلیکٹرز بھی کہ پاکستان میں مہنگائی کا طوفان مصنوعی ہے اور یہ سب کچھ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں بیٹھے آئی ایم ایف کے کارندوں کا کیا دھرا ہے ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سربراہ رضا باقر ہی صرف آئی ایم ایف کے ملازم نہیں ہیں بلکہ اسٹیٹ بینک میںاعلیٰ انتظامیہ کے ساتھ ہی درمیانے درجے کی انتظامیہ میں بھی ان کی شمولیت جاری ہے ۔ مرتضیٰ سید کی اسٹیٹ بینک میں ڈپٹی گورنر کے عہدے پر تعیناتی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ مہنگائی کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے کے بجائے چور بازاری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اس الزام کو درست ثابت کرتی ہے کہ عمران خان نیازی مصنوعی مہنگائی کے طوفان میں عوام کو غرقاب کرکے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کامیاب کوشش کررہے ہیں ۔ پاکستانی عوام کبھی سی این جی بھروانے کے لیے رات بھر لائن میں کھڑے ہوتے ہیں تو کبھی سستا آٹا خریدنے کے لیے دن بھر سستے آٹے کے اسٹال کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ۔ قدرتی گیس اور بجلی کے نرخوں میں کئی گنا اضافے نے ان کے کس بل پہلے ہی نکال دیے ہیں ۔ اب نہ تو کسی کو کرتار پور یاد ہے اور نہ ہی سقوط کشمیر ۔ اخبارات اورالیکٹرونک میڈیا میں آٹا اور چینی ہی چھایا ہوا ہے مگر پاکستان میںعمران خان نیازی اور ان کے سرپرست خوش ہیں کہ پاکستانی قوم کو مہنگائی کے سمندر میں غوطے دیے جا رہے ہیں۔ آٹے، چینی سمیت ہر شے کی مہنگائی سرکاری کرپشن اور ڈکیتی ہے۔ شوگر مافیا میں 45 فیصد حصہ حکمرانوں کا ہے۔