سَر پٹختا ایک سوال

496

پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے‘ ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے‘ آئین میں نظام حکومت سے متعلق مکمل وضاحت بھی موجود ہے اور حکومت کی ذمے داریوں کو بھی کھول کھول کربیان کیا گیا ہے‘ یہاں آزاد‘ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انتخاب کے ذریعے ووٹ کی طاقت کے ساتھ حق حکمرانی دیا جاتا ہے‘ حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو بیرونی جارحیت سے بچائے‘ انہیں جینے کا حق دے‘ عدل کے آئینی نظام کے ذریعے انصاف مہیا کرے‘ اور کسی بھی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے لیکن برسوں سے ایک سوال ہر حکومت کی چوکھٹ پر پڑا گل سڑ رہا ہے حکومت جو وعدے کرکے اقتدار میں آتی ہے یہ پورے کیوں نہیں کیے جاتے‘ بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا‘ پیپلزپارٹی کو وفاق میں چار بار اقتدار ملا‘ پنجاب میں ایک بار مکمل‘ دوسری بار جزوی‘ سندھ میں چھ بار حکومت مل چکی ہے لیکن یہ وعدہ آج تک پورا نہیں کیا جاسکا‘ مسلم لیگ(ن) کو عوام نے تین بار وفاق میں حکومت سازی کا حق دیا‘ لیکن یہ حکومت ملک میں عدل کا موثر نظام قائم نہیں کر سکی اس کی ساری توجہ سوشل ترقی کے لیے انفرا اسٹریکچر پر رہی‘ پنجاب میں بھی اسے حکومت کرنے کا موقع ملا‘ لیکن تعلیم‘ صحت اور سماجی بہود کے امور نظر انداز رہے ان شعبوں میں اپنے دیے ہوئے منشور کے مطابق عمل نہیں کر سکی‘ ملک کی کوئی دینی جماعت وفاق میں حکومت سازی کا حق نہیں لے سکی‘ تاہم بیش تر حکومتوں کا حصہ رہی ہیں‘ دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو کے پی کے میں کلی طور پر اور بلوچستان میں اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانے کا موقع ملا لیکن دونوں صوبوں میں اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے جو کچھ کیا جاسکتا تھا‘ وہ بھی نہیں کر سکی‘ پیپلزپارٹی اور اے این پی بھی اس صوبے میں حکومت کرتی رہی ہے لیکن عوام کے مسائل حل نہیں کر سکی۔
عوام کے مسائل کیا ہیں؟ ان کے کوئی لمبے چوڑے مطالبات نہیں ہیں‘ عوام کا کیا ہے؟ یہ تو ویسے ہی زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے اور ہر انتخاب میں قطار میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالنے والی مخلوق ہے‘ دو عشروں سے ملک میں ایک سیاسی مشق چل رہی ہے کہ سیاست دانوں کی ایک ایک بڑی تعداد پہلے ایک پارٹی میں رہ کر مزے لیتی ہے اور پانچ سال مکمل ہوجانے کے بعد دوسری جماعت میں شامل ہوجاتی ہے اور حکومت میں آکر یہی کہتی ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے ملک لوٹا ہے اور عوام بھی ان کی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں‘ آج کل بھی یہی ہو رہا ہے‘ آج کی کابینہ کا حال بھی یہ ہے کہ اس میں صرف نواز شریف اور آصف علی زرداری نہیں ہیں باقی سب وزراء انہی کی جماعت کے ہیں‘ آئین عوام کو ووٹ کے ذریعے پانچ سال کے لیے پارلیمنٹ منتخب کرنے کا اختیار دیتا ہے اور ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر مملکت پارلیمنٹ کی مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کے پابند ہیں مگر ان کے خطاب کی ساری نوک پلک حکومت خود سنوارتی ہے صدر اپنی جانب سے کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتے‘ فاروق لغاری‘ رفیق تارڑ‘ ممنون حسین اور عارف علوی سب اس معاملے میں ایک پیج پر ہیں‘ رفیق تارڑ کے انتخاب کے وقت ایک بیلٹ پیپر پر متنازع نعرہ لکھ دیا گیا تھا مگر پارلیمنٹ اور حکومت نے اس بات کی تحقیقات کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی‘ اگر اس وقت آئین کے آرٹیکل ۵‘ آرٹیکل ۶۳ پر عمل کرتے ہوئے پوری کی پوری پارلیمنٹ کے تمام ارکان تاحیات ناہل قرار دے دیے جاتے تو تو یہ ایک قومی کارنامہ ہوتا اس کے بعد کسی کو آج ملک کے خلاف بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی‘ آج کچھ لوگ پارلیمنٹ میں بھی بیٹھے ہیں اور ریاست اور آئین کے خلاف طرز عمل بھی دکھاتے ہیں‘ لیکن حکومتوں کی توجہ ہمیشہ اس جانب رہی کہ وزیر اعظم کی تصویر صفحہ اول پر چھپ جائے اور اپوزیشن کو میڈیا میں جگہ نہ ملے‘ ہر حکومت اس معاملے میں ایک پیج پر نظر آتی ہے اس کام کے لیے حکومتوں کو نہ جانے کیسے کیسے جتن کرنے پڑتے ہیں اور ہر حکومت یہ پاپڑ بیلتی ہے‘ لیکن اس کا کبھی فائدہ ہوا نہ ہوگا‘ عام آدمی کے مسائل کے حل کی کوشش حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی لیکن دنوں کی کروٹ سے ہفتوں اور ہفتوں کے بطن سے جنم لیتے مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات اور حالات نے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر کس طرح متاثر کیا ہے ہم اس بارے میں کبھی نہیں سوچتے یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم ایک بہتر، روشن، مثبت، تعمیری اور بامقصد زندگی گزارنے میں گزرے ہوئے سال سے کس طرح مدد لے سکتے ہیں‘ ہر حکومت اس بات کو اپنی کامیابی سمجھتی ہے کہ میڈیا میں حکومت ہی چھائی ہوئی ہے اور اپوزیشن کا پتا صاف ہے‘ تحریک انصاف کی حکومت اس لحاظ سے دوسری حکومتوں سے ممتاز ہے کہ اس نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا ہے‘ حکومت کے سیاسی رہنمائوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے وزیر اعظم کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن رکاوٹیں ہیں‘ کون سی رکاوٹیں ہیں؟ مرکز میں وہ مکمل اختیار رکھتے ہیں‘ پنجاب وزیر اعلیٰ بزدار کے حوالے ہے‘ تحریک انصاف مرکز میں پنجاب میں سیاہ و سفید کی مالک ہے‘ رکاوٹ کس بات کی ہے؟ اگر رکاوٹ عزم کو عمل تک پہنچانے میں ہے تو اس کی ذمے دار اپوزیشن نہیں خود حکومت ہے‘ حکومت عدل سے کام لے‘ ملک میں انصاف کا نظام لائے‘ خوشامدیوں سے بچ کر رہے اور اپنی آگاہی کے لیے میڈیا کو سچ لکھنے دے‘ غلط بیانی کرنے اور غلط لکھنے والوں کا محاسبہ کرے‘ مگر یہ کام… وزارت اطلاعات کے ذریعے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے‘ تبدیلی اس بات کا نام نہیں کہ سال بدلنے پر دیوار پر لگے ہوئے کلنڈر کو بدل دیا جائے‘ تبدیلی خود کو بدلنے کا نام ہے‘ بہتری لانے کا نام ہے ورنہ مسلم لیگ(ن) پیپلپزپارٹی اور تحریک انصاف میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔