حکمران طبقے نے ہی قوم کو غربت اور جہالت کا شکار کیا ،حافظ نعیم

371
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن‘ رکن صوبائی اسمبلی سید عبدالرشید اور جمعیت کراچی کے ناظم عمر احمد خان وفاقی اردو یونیورسٹی میں گریجویٹس طلبہ کے اعزاز میں تقریب سے خطاب کررہے ہیں

کراچی (اسٹاف رپورٹر)امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ممالک اور اقوام اپنے تعلیمی نظام کی وجہ سے ہی ترقی کرتی ہیں ، تعلیم ہی ایک باوقار قوم اور ملک بناتی ہے،تعلیم کو تجارت نہ بنایا جائے ، تعلیم ہمارا حق ہے ،حکمران طبقے نے ہی قوم کو غربت اور جہالت کا شکار کیا ہے ۔ کیاوزیر اعظم عمران خان ،وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور ان کی کابینہ کے ارکان کسی 5سرکاری اسکولوں کے نام بتا سکتے ہیں جن میں وہ اپنے بچوں ، پوتوں یا نواسے ،نواسیوں کو داخلہ کرانے پر تیار ہوں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ وفاقی جامعہ اردو کے تحت گریجویٹ طلبہ و طالبات کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ تقریب سے جامعہ اردو کے رجسٹرار ساجد جہانگیر ، اسٹوڈنٹس ایڈوائزر افضال ،شعبہ ارضیات کی سربراہ سیما ناز ، رکن صوبائی اسمبلی سید عبد الرشید اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔ تقریب میں جامعہ اردو کے طلبہ و طالبات اور ان کے اہل خانہ ، سینئراساتذہ نے شر کت کی طلبہ و طالبات کو اعزازی شیلڈز بھی پیش کی گئیں ۔ اس موقع پر سائنس فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر محمد زاہد ، اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم عمراحمد خان ، ناظم زون انیق احمد تابش ، جامعہ اردو کے ناظم عتیق الرحمن اور دیگر بھی موجود تھے ۔حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنی تعلیمی زندگی کا اہم سفر مکمل کیا ہے اورکامیابی کے ساتھ اپنی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کامیابی کا یہ سفر جاری رکھے اور یہ طلبا زندگی کے ہر مرحلے پر اسی طرح سرخرو ہوتے رہیں ۔انہوں نے کہا کہ بڑی بدقسمتی ہے کہ جامعہ اردو میں کوئی مستقل وائس چانسلر نہیں ہے اور کئی سال سے کانو وکیشن بھی منعقد نہیں ہوا۔ ہمارے حکمران ،صدر ،گورنر اور وزیر اعلیٰ نجی جامعات کے کانووکیشن میں تواکثر جاتے ہیں لیکن جو جامعات براہ راست ان کی نگرانی میںہیں وہاں کانووکیشن تک نہیں ہوتے ۔جب طلبہ یونین تھیں تو باقاعدگی سے سرکاری جامعات میں کانووکیشن ہوتے تھے ۔ طلبہ کا حق غصب نہیں کیا جاتا تھا ، طلبہ کو ضروری سہولیات میسر ہوتی تھیں ۔ ٹرانسپورٹ کا پورا انتظام ہوتا تھا ،آج سر کاری جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں کا جو حال ہے ، ملک کے تعلیمی نظام اور حکومت کی طرف سے شعبہ تعلیم کو نظر انداز کرنے کا جو رویہ ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ ہمارے ملک کو چلانے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز حکام کے ساتھ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ان کے پاس ڈگریاں نہیں ہیں ، وہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور بڑے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے اور غربت ہے اس لیے ملک کے حالات اچھے نہیں ہیں لیکن اصل میں قوم کو غریب اور جاہل تو خود ان لوگوں نے بنا کر رکھا ہے جو ملک کے حکمران ہیں ۔ ملک میں صحت کے مسائل ہیں ، لوگ علاج اور تعلیم سے محروم ہیں توجن لوگوں کے ہاتھوں میں اختیار اور اقتدار ہے ، جوریاست کے ذمے داراور 70سال سے ملک پر حکمران ہیںوہی اس کے ذمے دار ہیں یہ قوم کی بڑی قسمتی ہے کہ تعلیم تجارت بن گئی ہے ۔ تاجرانہ ذہن کے ساتھ جوتعلیمی نظام چلے گا وہ کبھی بہتر نتائج نہیں دے سکتا ۔ اس کے نتیجے میں مظلوم اور محروم طبقات مظلوم و محروم ہی رہتے ہیں اور صرف چند افراد تک میں تعلیم سمٹ کر رہ جا تی ہے ۔ نجی تعلیمی اداروں کی تو خیر کیا بات کی جائے سرکاری جامعات کی فیسیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں ۔ تعلیمی ضروریات مشکل ہو تی چلی جا رہی ہیں اور عوام پر نئے نئے ٹیکس لگ رہے ہیں ۔ بجلی ، گیس ، اشیائے صرف مہنگی ہو رہی ہیں ۔ ان حالات میں عام افراد کہاں سے اپنے بچوں کو تعلیم دلاسکتے ہیں ۔ سندھ میں 40ہزار اسکول ہیں کیا کوئی ایک ایسا ہے جس میں وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے ارکان اپنے اولاد کو تعلیم دلا سکتے ہیں اور جو حکمران جماعتیں ہیں ان سے وابستہ افراد اپنے بچوں کا داخلہ سرکاری اسکولوں میں کراسکتے ہیں؟ اگر بجٹ میں دیکھیں تو 1200ارب روپے تمام جامعات کے لیے ہیں ، جن میں تنخواہیں سمیت دیگر اخراجات ہیں اس میں سے سندھ کی جامعات کے لیے 280ارب روپے رکھے گئے ہیں تو پھر ایسی صورتحال میںتحقیق کا کام کیسے ہو سکتا ہے ؟ ماضی کے حکمرانوں کو تو سب بہت برا کہتے ہیں لیکن موجودہ حکمران جو نوجوانوں کو آگے بڑھانے اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئے تھے انہوں نے 14ماہ گزر نے کے بعد بھی تعلیم کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ مسلمانوں کی 14 سوسال کی تاریخ ہے کہ تعلیم کبھی بھی پیسوں سے حاصل نہیں کی گئی ۔ آج ضرورت ہے کہ تعلیم کے فروغ کی ایک تحریک چلائی جائے ۔ تعلیم تربیت کے لیے ہوتی ہے اور انسان کا کردار بناتی ہے ،اپنا حق لینے کے لیے ہمیں ایک اجتماعی تحریک کی ضرورت ہے ۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اسلام وہ دین ہے جس نے اس وقت بچیوں کی تعلیم کو ضروری قرار دیا جب بچیاں دفن کر دی جاتی تھیں ۔ اللہ کے رسول ؐ نے بچیوں کو عزت و احترام اور وقار کا مقام عطا کیا ۔ عورت کو وراثت میں حق دیا ۔ اسلام نے ہمیں ایک اچھا خاندانی نظام دیا ہے اور ہمیں اس کو بھی بچانا ہے ۔ اپنی تہذیب دین اور اقدار پر فخر کریں اور ان کے تحفظ کے لیے کوشش کریں ۔ ایک ایسا نظام یقینی بنایا جائے جس میں عدل و انصاف ہو اور پوری انسانیت کی بھلائی ہو وہ صرف اور صرف اسلام میں ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی نوجوانوں اور طلبہ و طالبات کو تحریک پاکستان میں حصہ لینے کا کہا تھا اور پھر پاکستان وجود میں آیا ۔