بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لایا جائے، مقررین کا آرٹس کونسل سے خطاب

461

کراچی:کشمیر کی  موجودہ صورت حال پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لایا جائے جبکہ تمام سیاسی پارٹیوں کو کشمیر مسئلے میں ایک موقف اختیار کرنا چائے کشمیری عوام بد ترین بھارتی مظالم کا شکار ہیں۔

تفصیلات کے مطابق آرٹس کونسل میں جموں کشمیر لبریشن سیل کے اشتراک سے کشمیر کی موجودہ صورت حال پر منعقد سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ کشمیر دوممالک کےد رمیان تنازعہ نہیں بلکہ ایک قوم کی حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے آزاد کشمیر حکومت کو ڈوگرہ کی جانشین حکومت کے طور پر تسلیم کر کے تحریک آزادی کشمیر کی سفارت کاری کشمیریوں کے حوالے کی جائے۔

 سیمینار میں سابق صدر سپریم کورٹ بار پاکستان سردار یاسین آزاد سیکریٹری جموں کشمیر لبریشن سیل آزاد حکومت منصور قادر، معروف مصنف و دانشور بشیر سدوزئی، ڈائریکٹر ریسرچ ونگ سردار ساجد محمود، پی ایم ایل این سے سردار شیراز خان،پی پی پی سے سردار فیصل خان ترجمان میڈیا سیل بلاول ہاوس سردار نزاکت ، جماعت اسلامی سے عبدالحمید سکندر حیات مغل لبریشن فرنٹ کے خواجہ محمد عبداللہ نے خطاب کیا۔

مقررین نے کہا کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ سلامتی کونسل کو اپنی قرار دادوں پر عمل کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ جب تک سفارت کاری کشمیریوں کو نہیں دی جاتی مذاہمتی تحریک کی قربانیوں سے فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔حریت کانفرنس کو اب واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو کشمیر مسئلے میں ایک موقف اختیار کرنا چائے کشمیری عوام بد ترین بھارتی مظالم کا شکار ہیں۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں،آزاد کشمیر و پاکستان کے عوام مقبوضہ کشمیر کے شانہ بشانہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

سیمینار میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کے حوالے سے جموں کشمیر لبریشن سیل ،کراچی میں مقیم کشمیری کمیونٹی کے ساتھ مل کر ای میل مہم کا انعقاد عمل میں لایا جائے گا جس کے تحت اقوام متحدہ کے مبصرین کے علاوہ دنیا کی اہم شخصیات کو بذریعہ ای میل کشمیری عوام کو حق خود ارادیت کی فراہمی کے لیے اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔

 شرکاءنے کہا کہ اس مسئلے پر صرف دو ممالک نہیں بلکہ تین فریقوں کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔کشمیری ایسے مذاکرات میں ہونے والے کسی فیصلہ کو تسلیم نہیں کریں گے جس میں کشمیری شامل نہ ہوں۔