تخریبی اشتراک !

420

جمعہ 10 جنوری کو کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹائون کے قریب اسحاق آباد کی ایک مسجد میں خودکش دھماکے میں پندرہ نمازی جاں بحق ہوگئے، متعدد زخمی ہوئے۔ یہ سانحہ نماز مغرب کی ادائیگی کے دوران پیش آیا۔ دوسری صف میں کھڑے بد بخت دہشت گرد نے جسم سے بندھے بم کا دھماکا کردیا۔ یقینا مسلمان تھا، جس نے اپنے کلمہ گو مومن بھائیوں کو خون میں نہلایا۔ زندگی کے ساتھ اپنی آخرت بھی برباد کردی۔ ذمے داری داعش نامی گروہ نے قبول کرلی۔ جن سے وابستہ افراد کسی دوسری دنیا کی خلوق نہیں ہیں۔ افغانستان کے بعض علاقوں میں کمین گاہیں رکھتے ہیں۔ بلوچستان کے اندر لشکر جھنگوی وغیرہ کے لوگ اور سابقہ قبائلی علاقوں کے شدت پسند مسلح گروہوں سے وابستہ افراد ان سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر ان کا نیٹ ورک نہیں رہا ہے۔ البتہ شخصی تعلق و روابط ضرور ہیں۔ پیش ازیں سات جنوری کو کوئٹہ کے میکانگی روڈ پر دھماکا کیا گیا جس میں دو شہری جاں بحق، کئی زخمی ہوئے۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گرد پھر سے متحرک ہوگئے ہیں۔ افغانستان کے اندر داعش نامی گروہ کی شناخت مبہم نہیں ہے۔ وہاںکے اہم افراد اسی طرح افغان طالبان بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان افراد کو امریکی سی آئی اے اور کابل انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے۔ افغان طالبان قابض افواج کے ساتھ ان کو بھی ایک لمحہ برداشت نہیں کرتے۔ کئی بار انہیں جانی و مالی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ طالبان اس گروہ کا محاصرہ کرتے ہیں، تو امریکی، ناٹو اور افغان فورسز طالبان پر فضائی حملہ کرکے انہیں فرار کا موقع دیتی ہیں۔ امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد اعتراف کرچکے ہیں کہ طالبان کو داعش کی سرکوبی میں کامیابیاں ملی ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی مختلف اوقات پکار اٹھے ہیں کہ افغانستان میں داعش کی سرپرستی ہورہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس صورتحال میں نئی دہلی لاتعلق ہے۔ دراصل بھارت افغانستان کے اندر کلیدی کردار کا حامل ہے۔ جو کابل انتظامیہ کی پوری عمل داری میں بے لگام ہے۔ بندوبست اور منصوبوں کا ہدف اگر پاکستان ہے، تو ساتھ افغانستان کے اندر امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی سعی بھی کرتا ہے۔ اس ضمن میں ’’را‘‘ اور کابل انتظامیہ کے درمیان تعلق و ہم آہنگی ہے۔ یہ امر بھی مبالغہ سے خالی ہے کہ کابل انتظامیہ کی ’’این ڈی ایس‘‘ امریکی ’’سی آئی اے‘‘ اور بھارتی ’’را‘‘ کے ایک شعبہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ایسے ہی جیسے سابقہ ’’خاد‘‘ کی حیثیت روسی اتحاد کے ’’KGB‘‘ کی تھی۔ نور محمد ترہ کئی، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ روسی مشیروں، معاونین اور کے جی بی کے ماتحت تھے۔ ان کی ہر وزارت روسی معاونین و مشیر چلاتے تھے۔ کابل ریڈیو اور سرکاری ٹی وی کے اندر تک روسی بیٹھے ہوئے تھے۔ موجودہ کابل رجیم بھی تحتُ الاثر ہے، بھارتی اور امریکی Proxies ہیں، بیرونی ہدایات پر عمل کی پابند ہیں۔ اپنے عوام اور ملک کے مفادات سے زیادہ انہیں واشنگٹن اور نئی دہلی کی رضا مقدم ہے۔ چناںچہ کوئٹہ کے اس خودکش حملے کے بعد جاسوسی کے ان اداروں نے حملے کی تشہیر اپنے مقصد کے تحت کرلی۔ یقینی طور پر دھماکے سے ’’را‘‘ اور ’’این ڈی ایس‘‘ لا تعلق نہیں
ہیں۔ اس گروہ اور بعض افغان ابلاغی حلقوں نے خبر اُڑائی کہ ’’طالبان کے شیڈو چیف جسٹس شیخ عبدالحکیم زخمی ہوگئے۔ اور کوئٹہ شوریٰ کے حلیم احمد خان، گل آغا اخوند اور امان اللہ سمیت ان کے جنگجو جاں بحق ہوگئے۔ مزید یہ کہ عبدالطیف اور نظر محمد نامی افراد جو طالبان کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے پر مامور تھے، بھی چل بسے۔ نیز بھونڈا پروپیگنڈا یہ بھی کیا کہ مسجد میں طالبان کی میٹنگ ہورہی تھی۔ جس میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور منشیات کے اسمگلر بھی شریک تھے‘‘۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دھماکے میں نشانہ بننے والوں میں کوئی بھی نامعلوم شخص نہیں تھا۔ تمام کی شناخت ولدیت سمیت ہوچکی ہے۔ جن میں چھ افغان باشندے تھے۔ اس محلے کے رہائشی بلوچستان پولیس کے آفیسر ڈی ایس پی امان اللہ اسحاق زئی بھی جاں بحق ہوئے۔ یہ محلے کی مسجد ہے، اہل محلہ نماز ادا کرتے ہیں۔ دوم، طالبان افغانستان کے غالب حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں انہیں یہاں میٹنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ رہی یہ بات کہ آئی ایس آئی کے لوگ شریک تھے تو پھر تو یہ اجلاس کوئٹہ چھائونی جیسے محفوظ مقام پر ہونا چاہیے تھا۔ سوم بلوچستان و کوئٹہ کے اندر ہزاروں لاکھوں افغان باشندے مقیم ہیں۔ اور روزانہ ہزاروں افغان باشندے پاکستان آتے اور جاتے ہیں۔ افغان سرکاری اداروں و محکموں کے ملازمین کے رشتہ دار اور خاندان کے افراد یہاں رہائش رکھتے ہیں۔ وہاں کے بڑے بڑے سیاستدان، معتبرین اور اراکین پارلیمنٹ کے خاندان یہاں سکونت پزیر ہیں۔ یعنی تجارت پیشہ ہوں یا سرکاری لوگ سب کا پاکستان آ نا جانا رہتا ہے۔ گویا نہ آنے کی قید کسی پر نہیں ہے۔ یہاں کی مساجد اور مدارس میں افغان طلبہ تعلیم کی غرض سے مقیم ہیں۔ بعینہٖ عصری تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ بلکہ افغان قومی کرکٹ ٹیم کے بیش تر کھلاڑی پاکستان میں پلے بڑھے ہیں۔ ان کی تعلیم، تربیت حتیٰ کہ کرکٹ سے وابستگی بھی پاکستان ہی میں ہوئی ہے۔ سو افغانستان کی اس بڑی سیاسی و مزاحمتی تحریک کا افغان عوام ہی حصہ ہیں۔ ان کے وابستگان کی پاکستان میں رہائش حیرانگی و اَچنبھے کی بات ہرگز نہیں ہے۔ نہ شیخ عبدالحکیم اس دھماکے میں زخمی ہوئے ہیں۔ دہشت گردی میں اسحاق آباد کے معلوم لوگ جان سے گئے ہیں۔ ذمے داری کوئی بھی قبول کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مردم کشی ’’را‘‘ اور اس کے طفیلی افغان جاسوسی کے ادارے ’’این ڈی ایس‘‘ نے کی ہے۔ پاکستان کے نقصان و بدنامی کی کوشش کے ساتھ، مقصد امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے میں رخنہ ڈالنا بھی ہے۔ چند ماہ قبل کوئٹہ کے کچلاک کی ایک مسجد میں طالبان تحریک کے امیر مولوی ہبت اللہ اخوند زادہ کے بھائی حافظ احمد اللہ کو بم دھماکے میں قتل کردیا۔ بعض پشتون سیاسی مکتبہ فکر کا اس نوع کی دہشت گردی کی مذمت سے گریز بھی عیاں کرتا ہے کہ ان واقعات میں ہمسایہ ممالک کے ادارے ملوث ہیں۔ گویا نئی دہلی اور کابل کے پاکستانی Proxies کا داعش وغیرہ اور ’’را‘‘ و ’’این ڈی ایس‘‘ کے اشتراک و تخریبی عملیات پر سوال نہ اُٹھانا بھی ایک سوال ہے۔