حساس صورتِ حال

655

امریکا نے بغداد میں فضائی حملہ کر کے ایرانی ’’القُدس فورس‘‘ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کردیا، جنرل قاسم سلیمانی ایرانی رہبر علی خامنہ ای کے قریبی معتمد اور ایران کی بااثر شخصیات میں سے تھے۔ امریکا کا یہ ہدَفی (Targeted) قتل مسلَّمہ بین الاقوامی قوانین اور سفارتی اَقدار کے بالکل خلاف ہے، لیکن امریکا طاقت کے زعم میں اپنے آپ کو کسی عالمی قانون کا پابند نہیں سمجھتا، خاص طور پرموجودہ امریکی صدر ٹرمپ کا جذباتی رویہ دنیا کے لیے خطرے کی علامت ہے، وہ Unpredictable ہیں، یعنی اُن کے اگلے اقدام کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ ایرانی رہبر اور صدر نے بھی امریکی اقدام کا فوری ردِّعمل دیتے ہوئے کہا تھا: ’’ہم بدلہ لیں گے‘‘۔ اس کے جواب میں ٹرمپ نے مزید جارحانہ اقدامات کی دھمکی دی، لیکن جنرل قاسم سلیمانی کی تدفین سے پہلے ایران نے جوابی کارروائی کردی، ایرانی حکومت نے اس کارروائی کو متناسب قرار دیتے ہوئے کہا: ’’اگر امریکا نے مزید حملہ کیا تو ہمارا جواب نہایت سخت ہوگا‘‘۔
امریکا کے اتحادیوں اور خود امریکا کے اندر ٹرمپ کے اس اقدام پر اتفاقِ رائے نہیں ہے، امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی نے ٹرمپ انتظامیہ کو متنبہ کیا ہے: ’’تحمل سے کام لیں، امریکا اور دنیا ایک اور جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح ایرانی قوم نے اس مرحلے پر مثالی اتحاد اور جوش وجذبے کا مظاہرہ کیا ہے، امریکا میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے پڑوسیوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ہم نہیں کہتے کہ خطے کے ممالک امریکا سے لڑیں، لیکن پڑوسی کی قربانی بھی تونہ دیں‘‘۔ یعنی کم از کم امریکا کی کھل کر مذمت کریں اور ہمارے خلاف اُن کے معاون یا سہولت کار نہ بنیں۔
آخرِ کار ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی تدفین سے پہلے عراق میں قائم امریکی اڈوں پر بیس سے زائد راکٹ داغ کر بدلہ لے لیا، اس کارروائی کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کا ٹویٹ یہ تھا: ’’All is well, So far So good‘‘، یعنی سب ٹھیک ہے، سرِ دست ستّے خیراں‘‘۔ جبکہ ایران کی طرف سے اسّی ہلاکتوں کا دعویٰ سامنے آیا ہے، ایرانی رہبر نے کہا: ہم نے امریکا کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا، مزید کارروائی کی ضرورت نہیں‘‘۔ ایرانی افواج کے سربراہ جنرل باقری نے کہا: ’’اس کا جواب آیا تو اگلا ردِّعمل اور سخت ہوگا‘‘۔
ہماری رائے میں ایران نے امریکا کو صرف یہ پیغام دیا ہے کہ آپ بھی ہماری پہنچ میں ہیں، لیکن شاید حکمتِ عملی کے تحت زیادہ نقصان پہنچانے سے گریز کیا ہے تاکہ حالات بے قابو نہ ہوجائیں، صدر ٹرمپ بھی کافی وقت گزرنے کے بعد میڈیا کے سامنے آئے اور اپنا ردِّعمل دیتے ہوئے کہا: ’’ہمارا اور عراقیوں کا جانی نقصان نہیں ہوا، صرف اڈے کو کچھ نقصان پہنچا ہے‘‘، انہوں نے یہ بھی کہا: ’’ایران نے ہمارے دو ڈرون گرائے تھے اور سلیمانی نے ہمارے لوگ مارے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا‘‘۔ وہ ایک طرح سے حملے کا جواز پیش کر رہے تھے، لیکن مزید پابندیاں لگانے کے اعلان کے سوا ٹرمپ نے کسی فوری فوجی ردِّعمل کی بات نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین فی الوقت تصادم کو بڑھانا نہیں چاہتے۔
ردِّعمل دیتے ہوئے ٹرمپ کی باڈی لینگویج بہت پر اعتماد اور متاثر کن نہیں تھی، ان کے چہرے پر نہ فاتحانہ تفاخر نظر آرہا تھا اور نہ غیر معمولی چمک، کچھ لیے دیے سے لگ رہے تھے۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ خلافِ توقع انہیں اپنے اتحادیوں اور خود اندرونِ ملک سے وہ غیرمعمولی پزیرائی اور حمایت نہیں ملی، جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی کا ردِّعمل تو ٹرمپ کے لیے مایوس کن تھا، ٹرمپ کے اقدام کا عالمی اسٹاک مارکیٹوں پر بھی منفی اثر پڑا۔ ٹرمپ نے گیس اور پٹرول میں اپنے خود کفیل ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا: ہمارا انحصار مشرقِ وُسطیٰ پر نہیں ہے، انہوں نے اپنی جدید ترین اور غیرمعمولی حربی قوت کے بارے میں بات کی اور کہا: ’’میرے دور میں دفاع پر پچیس ہزار ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں‘‘ اور آخر میں کہا: ’’ہم ایران کو ایٹمی طاقت نہیں بننے دیں گے‘‘۔
ایرانی امور کے ایک ماہر سے میں نے پوچھا: کیا آپ جنگ کو پھیلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا: ’’ایران نے اپنے آپ کو 2015 کے ایٹمی معاہدے سے الگ کرنے اور یورنیم افزودگی دوبارہ شروع کرنے کا جو اعلان کیا ہے، مغرب کے لیے اتنا پیغام کافی ہے‘‘، یورپین یونین والے سوچیں گے کہ سابق معاہدے میں ہم نے جو حاصل کیا تھا، ٹرمپ کے اقدام سے وہ بھی ہاتھ سے نکل گیا اور ایران کے ایٹمی طاقت بننے کا خطرہ دوبارہ لوٹ آیا، سو ممکن ہے کہ اس مسئلے پر دوبارہ مذاکرات شروع ہوں۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا: ’’قاسم سلیمانی پر حملے سے کم از کم دفاعی توازن بحال کیا‘‘۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کا کردارمشرقِ وُسطیٰ میں اہم تھا، وہ امریکی مفادات کو نقصان پہنچارہے تھے یا نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں تھے اور خطے کے کنٹرول کے حوالے سے توازن امریکا کے ہاتھ سے نکل رہا تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی نے خطرات کو اپنے ملک کی سرحدوں سے دور رکھا، تمام مخالف فریقوں کو شام، عراق اور یمن میں مشغول رکھا۔ مختلف مواقع پر امریکا اور ایران میں تعاون بھی رہا، مثلاً: عراق میں صدام حکومت کا خاتمہ اور نئی حکومت کا قیام اور داعش کے خلاف مشترکہ کارروائیاں۔ نیز انہوں نے کمالِ مہارت کا مظاہرہ کیا اوراپنی کمان میں لبنان، شام، عراق اور یمن میں مسلح گروپ بنائے، انہیں وسائل فراہم کیے اور اپنے اپنے دائرۂ کار میں کارروائیاں کرنے کے لیے اُن کو ’’فری ہینڈ‘‘ دیا ہوا تھا، کیونکہ سینٹرلائز ڈکمانڈ اینڈکنٹرول میں پیغامات لیک ہونے کا خطرہ ہوتا ہے یا بعض اوقات منظوری لیتے لیتے ہدف ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور وزیرِ دفاع مارک ایسپر نے سالارِ اعلیٰ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایک بار پھر بات کی ہے، ایرانی سفیر نے بھی ان سے ملاقات کی ہے۔ موجودہ دور میں کوئی ملک دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتا، اس وقت مشرقِ وُسطیٰ میں عالمی کشمکش جاری ہے، پاکستان کا خواستہ وناخواستہ اس سے متاثر ہونا ناگزیر ہے۔ اسی طرح پاکستان کا سعودی عرب اور ایران، نیز امریکا اور ایران کے مابین جاری کشمکش سے اپنا دامن بچاتے ہوئے نکل جانا پلِ صراط پر چلنے کے مترادف ہے، کیونکہ امریکا اور سعودی عرب دونوں اس وقت ایران کے مقابل صف آراہیں۔ پاکستان نہ سعودی عرب وخلیجی ممالک کی قربت کو چھوڑنے کا خطرہ مول لے سکتا ہے اور نہ ایران کی عداوت کا متحمل ہوسکتا ہے، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کہہ چکے ہیں: ’’ہمارے چالیس لاکھ افراد سعودی عرب اور امارات میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں، نیز سب جانتے ہیں کہ سعودی عرب، ابوظبی اور قطر کے رعایتی شرحِ سود پرقرض اور پٹرول کی ادھار فراہمی نے ہمارے زرِ مبادلہ کو سہارا دیا ہوا ہے، ورنہ آئی ایم ایف کے قرض کے باوجود ہمارے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ٹلا نہیں ہے، حالانکہ ہم درآمدات کو محدود کر کے اپنی معیشت کا حجم کم کرچکے ہیں۔ کچھ بلائیں ناگہانی ہوتی ہیں اور کچھ اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور (اے مسلمانو!) تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے اور بہت سے قصور تو وہ معاف (بھی) فرما دیتا ہے، (الشوریٰ: 30)‘‘۔ پس ہمارا قومی قصور قرض کی لَت ہے، جس سے چاہت کے باوجود چھٹکارا آسان نہیں ہے، غالب نے کہا ہے:
قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
پاکستان کے اندر بہت گہرے ہیں، ایران کے ساتھ کاروباری اور اقتصادی میدان میں ہماری کوئی بڑی شراکت کبھی بھی قائم نہیں رہی، لیکن سرحد کے راستے اسمگلنگ کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ہے اور معیشت کا یہ شعبہ اگرچہ غیرقانونی ہے، لیکن اس کے ساتھ بھی کچھ لوگوں کا روزگار اور کاروبار وابستہ ہوتاہے، کئی تاجروں سے معلوم ہوا کہ موجودہ دور میں بھی ایرانی سرحد سے پٹرول، ڈیزل، بہت سی انڈین اشیاء گرم مصالحے، چھالیہ وغیرہ کی اسمگلنگ جاری ہے اور کسٹم ڈیوٹی ادا کر کے درآمد کرنے والے تاجر اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ صدر ایوب خان کے دور کے علاوہ ایران کے ساتھ پاکستان کے غیر معمولی حد تک خوشگوار تعلقات کبھی قائم نہیں رہے، لیکن ہمسائیگی کا رشتہ اٹُوٹ ہوتا ہے اور اس کے اثرات ناگزیر ہوتے ہیں۔
پاکستان کا حکومتی موقف بہت محتاط ہے اور ہونا بھی چاہیے، وزیرِ اعظم کا یہ کہنا بجا ہے: ’’ہم کسی اور جنگ میں الجھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے‘‘، کیونکہ ماضی کے تجربات بہت تلخ ہیں۔ پاکستان نے جنرل قاسم سلیمانی پر قاتلانہ حملے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے، سفارتی شعبے میں الفاظ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، کبھی افسوس کیا جاتا ہے، کبھی تشویش ظاہر کی جاتی ہے اور کبھی مذمت کی جاتی ہے۔ 26نومبر 2011 کو ناٹو کے ہیلی کاپٹروں نے غلط مخبری (Intelligence) کے نتیجے میں مہمند ایجنسی کے قریب سلالہ چیک پوسٹ پر ہمارے پچیس فوجی جوانوں کو شہید کیا، اس وقت کی امریکی حکومت نے اس پر صرف افسوس کا اظہار کیا، ہماری شدید خواہش کے باوجود نہ مذمت کی اور نہ اس پر معافی مانگی، سو یہاں بھی اگر پاکستان تشویش سے آگے بڑھ کر مذمت کے الفاظ کہہ دیتا تو شاید بہتر ہوتا، لیکن درپیش مصلحتوں کا ادراک نظامِ حکومت چلانے والوں کو بہتر ہوتا ہے، ہم باہر بیٹھ کر صرف رائے قائم کرسکتے ہیں۔
سالارِ اعلیٰ جنرل قمر جاوید باجوہ کو امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کا جنرل قاسم سلیمان پر حملے کی واردات کے بعد سب سے پہلے ٹیلی فون کرنا خطرے کی علامت ہے۔ یہ ٹیلی فون یقینا ہیلو ہائے کے لیے نہیں ہوگا، بلکہ امریکی وزیرِ خارجہ نے متوقع ایرانی ردِّعمل کے نتیجے میں امکانی طور پر پیش آنے والی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی فرمائشی فہرست مہیا کی ہوگی اور یہ بتایا ہوگا کہ پاکستان سے کس طرح کا کردار مطلوب ہے، کیونکہ امریکا درخواست نہیں کرتا، بلکہ حکم صادر کرتا ہے اور جب تک ہم معاشی وسیاسی استحکام حاصل نہیں کرپاتے، ایسے احکام ملتے رہیں گے، علامہ اقبال کا یہ شعر ہمارے حسبِ حال ہے:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
یہ امر اطمینان کا باعث ہے کہ تاحال ہماری حکومت نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے، ماضی کے تجربات سے سبق سیکھا ہے اور اس تاثر کی پہلی مرتبہ نفی کی ہے کہ ’’ہم ہر وقت ہرایک کے لیے برائے خدمت دستیاب ہیں‘‘، پس ہمارے قومی مفادات اولین ترجیح ہیں اور ہمیشہ رہنے چاہییں۔