قبولیت اعمال کی بنیاد مفتی محمد یوسف کشمیری

499

 

اللہ رب العزت نے سورۃ ابراہیم میں مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کلمہ طیبہ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پاکیزہ درخت۔ جس کی جڑیں زمین میں پختگی سے پیوست ہوں، شاخیں آسمان کی طرف بلند ہوں اور یہ ہر موسم میں صدا بہار پھل دیتا ہو۔ اسی طرح خبیث اور گندے کلمے کی مثال خبیث اور گندے درخت سے بیان کی ہے۔ دراصل اللہ رب العزت ان مثالوں کے ذریعے ہمیں عقیدے کا سبق دے رہے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی سمجھ بوجھ سے لوگوں میں غورو فکر کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ آپ نے تلاوت کے دوران یہ دیکھا ہوگا کہ اللہ رب العزت نے مکی سورتوں میں طرح طرح کی مثالیں بیان فرما کر کچھ باتیں سمجھائی ہیں۔ قرآن مجید کی بیان کردہ تمام مثالیں ہماری روز مرہ کی زندگی میں ہمارے مشاہدے میں بھی آتی ہیں۔ یہ تمام مثالیں تقریباً مکی صورتوںمیں ہیں، کیونکہ مکی صورتوں میں عقیدہ سمجھایا گیا ہے اور عقائد کی اصلاح کی گئی ہے۔ ہجرت مدینہ کے بعد نمازیں با جماعت فرض ہوئیں، روزے فرض ہوئے۔ اس کے بعد زکوٰۃ اور حج فرض ہوا۔ بے شمار دیگر امور میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی رہنمائی مدینہ میں کی ہے۔
بہر حال اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ عقیدہ ہر عمل کی بنیاد ہے۔ جتنا پختہ اور مضبوط عقیدہ ہوگا، اتنا ہی عمل بھی پختہ ہوگا۔ سب سے پہلے عقیدے کی پختگی، عقیدے کی مضبوطی لازم اور بنیادی شرط ہے۔ اس ضمن میں سورۃ ابراہیم کی یہ دو آیتیں بہت بنیادی ہیں۔ ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ اس پر توجہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں کلمہ طیبہ کی مثال دی، یہاں کلمہ طیبہ سے کیا مراد ہے؟ یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ یہ مکمل دین ہے۔ اسلام کلمہ طیبہ ہے، ایمان بھی کلمہ طیبہ ہے۔ ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام انسانی روپ میں رسول اللہؐ کے پاس آئے اور ایمان کے بارے میں سوال کیا۔ آپؐ نے چھ چیزوں کا نام ایمان بتایا: 1۔ اللہ پر ایمان لانا 2۔فرشتوں پر 3۔رسولوں پر 4۔آسمانی کتابوں پر 5۔آخرت پر 6۔اچھی بری تقدیر پر۔ (بخاری و مسلم) درحقیقت یہ اسلام کی بنیاد ہے۔ جب معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجا گیا تو رسول اللہؐ نے فرمایا: معاذ آپ کو جس ملک کی طرف داعی بنا کر بھیج رہا ہوں، وہاں یہود ونصاریٰ بستے ہیں۔ دونوں اہل کتاب ہیں۔ یمن جا کر سب سے پہلی دعوت یہ دینی ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ اگر وہ تیری بات مان لیں تو پھر ان کو بتانا کہ دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اگر نمازیں پڑھنے لگ جائیں تو پھر بتانا کہ زکوٰۃ بھی فرض ہے، سال میں ایک مرتبہ حساب میں سے ادا کریں۔ اگر تیری یہ بات مان لیں پھر بتانا کہ رمضان کے روزے بھی فرض ہیں۔ جب رمضان آئے اور وہ تیری اطاعت کر لیں تو ان کو بتانا کہ حج بھی فرض ہے۔ (بخاری و مسلم)
دو چیزیں امت مسلمہ میں انتہائی باریکی سے پھیلے گئیں، ایک شرک اصغر اور دوسرا نفاق۔ صحابہ کرامؓ نفاق سے سخت ڈرتے تھے۔ امام ابنِ تیمیہؒ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو بڑے گناہوں سے صحابہ کرام کو محفوظ رکھا، ایک شرک اور دوسرا جھوٹ۔ کسی ایک صحابی نے بھی جھوٹ نہیں بولا اور شرک میں مبتلا نہیں ہوا۔بلاشبہ مضبوط عقائد کی بنیاد پر اعمال صالحہ اللہ کے ہاں قبول ہوتے ہیں۔ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا: رات کے اعمال صبح ہونے سے پہلے اللہ کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور دن کے اعمال رات ہونے سے پہلے اللہ کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اعمال پیش ہوتے وقت دو طرح کے لوگوں کے اعمال میرے پاس پیش نہ کیے جائیں، ایک وہ شخص جو اللہ کی ذات میں یا صفات میں کسی قسم کا شرک کرے اور دوسرا وہ مسلمان جو اپنی ذات کی خاطر، دنیاوی مفاد کی خاطر آپس میں ناراض ہوں۔ (صحیح مسلم) اگر ناراضگی کی بنیاد دین ہے تو ٹھیک ورنہ یہ ناراضگی اعمال کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بنے گی۔ ناراضگی اختیار کرنی ہے تو اللہ کی خاطر اور محبت کرنی ہے تب بھی اللہ کی خاطر، ایسے شخص کا ایمان مکمل ہے۔ جو آدمی آپس میں دنیا کی خاطر ناراض ہیں تو ان کے اعمال پیچھے کر دیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ صلح کر لیں۔ غور کریں یہ کتنی بڑی محرومی ہے کہ بندہ دنیا کے اندر اعمال کرتا رہے، نیکیاں کرتا رہے، لیکن عقیدے میں جھول ہے، خرابی ہے، جڑ کمزور ہے تو وہ اعمال غارت ہوجائیں گے۔ ایسے اعمال اللہ کی طرف پہنچ ہی نہیں پاتے۔ اللہ ہمیں عقائد کی خرابی اور اعمال کی عدم قبولیت سے محفوظ فرمائے۔ آمین