!وزارت چھوڑنے کا احتجاج یا مذاق

418

متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے اتوار کے روز پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے علٰیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔ ایم کیو ایم کے عارضی مرکز بہادر آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ گزشتہ سال تک وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا اس لیے یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ سندھ کے شہری علاقوں کے لیے کچھ نہ کرنے کے باوجود وفاقی وزیر رہوں۔ خالد مقبول صدیقی کی اس ہنگامی پریس کانفرنس کے موقع پر ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر عامر خان اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ خالد مقبول کا وزارت چھوڑنے کا فیصلہ ایم کیو ایم کی سیاسی پالیسی سے زیادہ ان کی ذات کا لگتا ہے اگر یہ سیاسی اور اصولی ہوتا تو متحدہ کے دوسرے وزیر فروغ نسیم بھی وزارت چھوڑ دیتے کیونکہ ان کی وزارت سے بھی عام لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ تاہم حکومت کو فروغ نسیم کے وزیر قانون ہونے سے فائدہ ہی نہیں بلکہ استحکام بھی مل رہا ہے۔ متحدہ کو ایک وزارت چھوڑنے کا احتجاج ہی کرنا تھا تو وہ وزارت قانون سے استعفا دیتی تو اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا مگر اب یہ ایک مذاق سے کم نہیں لگتا۔
سندھ میں ماہ اگست میں منتخب بلدیاتی کونسلوں کی مدت ختم ہورہی ہے گو کہ بلدیاتی انتخابات کا موسم کراچی سمیت صوبے بھر پر منڈلانے لگا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کو کراچی میں اپنی میئر کی نشست دوبارہ حاصل کرنے کی فکر بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے کیونکہ یہاں دوبارہ ایم کیو ایم کا میئر منتخب نہ ہونے کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں آئندہ کی سیاست کے لیے ایم کیو ایم کی یہ مجبوری ہوگئی ہے کہ لوگوں کو ’’سسٹم‘‘ میں اپنی مثبت انداز میں موجودگی کا احساس بھی دلاتے رہیں۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وہ ڈیڑھ سال میں سندھ کے شہری علاقوں کے لوگوں کو کچھ دے نہیں سکے اس لیے ان کا وفاقی وزیر رہنا مناسب نہیں ہے اس لیے وہ وزارت چھوڑ رہے ہیں اگر متحدہ کے رہنماء کا یہ اصولی سیاسی موقف ہے تو ایم کیو ایم کے ووٹرز، کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں کے لوگ ایم کیو ایم سے یہ سوال کرنے پر حق بجانب ہوںگے کہ انہوں کراچی اور حیدرآباد میں منتخب میئرز ہونے کے باوجود ان شہروں کو کیا دیا؟۔ کیا ان شہروں کو درپیش بلدیاتی مسائل ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر اور طیب حسین حل کرنے میں کامیاب ہوگئے؟ اگر نہیں تو میئر کی نشستوں پر کن توقعات پر ابھی تک براجمان ہیں؟۔
ایم کیو ایم نے الطاف حسین کی قیادت میں جو کچھ تحریک اور اپنے لوگوں کے ساتھ کیا وہ تمام ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ اس زمانے میں بھی ووٹرز کے مسائل حل کیے گئے اور نہ ہی شہریوں کو کچھ دیا گیا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان 32 سال میں سندھ کے شہری علاقوں کے لوگوں کو ایم کیو ایم نے اپنی ’’اسلحے کی طاقت‘‘ کے زور پر قید کیا ہوا تھا، اس زمانے میں ایم کیو ایم سیاسی جماعت سے زیادہ ایک خطرناک مافیا بنی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں وہ مسلسل لوگوں کے ذہنوں کو بھی منجمد کیے ہوئے تھی۔ لوگوں برا سہتے، سوچتے اور دیکھتے ہوئے بھی اس کا اظہار کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن اب وہ ایم کیو ایم باقی نہیں رہی بس اس کی کڑوی یادیں انسانی دماغوں میں محفوظ ہیں۔ وہ باتیں ایم کیو ایم کو اب مسلسل اس کی حقیقی حیثیت کی طرف لے کر جارہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں اب موجودہ ایم کیو ایم سے وابستہ لوگ خود روزبروز مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے پاس اب احتجاجاً اپنی وزارتوں کو چھوڑنے کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ متحدہ کی پریشانی یہ بھی ہے کہ وہ وفاق میں موجود دو وزارتوں میں سے صرف ایک ہی کو چھوڑ سکتی ہے۔ ان کے پاس احتجاجاً قومی اسمبلی کی سیٹوں سے مستعفی تو ہونا کجا وفاقی حکومت سے علٰیحدہ ہونے کی بھی جرأت نہیں ہے۔ وہ اپنے دوسرے وفاقی وزیر بیرسٹر فروغ نسیم کو وزارت سے مستعفی ہونے کے لیے بھی راضی نہیں کرسکی۔ فروغ نسیم بھی یہ وزارت نہیں چھوڑنا چاہیں گے، یہی نہیں بلکہ اطلاعات کے مطابق فروغ نسیم نے متحدہ کی قیادت سے اس طرح کا احتجاج کرنے کی مخالفت بھی کی تھی شاید یہی وجہ تھی کہ وزیر قانون فروغ نسیم اپنے سیاسی لیڈر کی پریس کانفرنس میں نظر نہیں آئے۔ متحدہ کو ان ہی حالات میں اپنی بقاء کی جنگ لڑنا ہے۔ مگر یہ حالات اسے کسی سیاسی جنگ کی اجازت بھی نہیں دے رہے۔ متحدہ سے جڑے ہوئے لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’اب تو ہمارے لیے آگے کھائی اور پیچھے کنواں‘‘ مثل کی صورتحال ہے۔ ان حالات میں خالد مقبول صدیقی اور عامر خان کے لیے متحدہ کو زندہ ہی نہیں بلکہ ماضی کی طرح مضبوط بنانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ متحدہ کو ابھی اپنی ماضی کی غلطیوں اور کراچی کے بلدیاتی اداروں میں جاری بدانتظامی اور بدعنوانیوں کا بھی ازالہ کرنا ہے۔ ایسے میں دینی ذہن کے لوگوں کا کہنا ہے کہ متحدہ کے ساتھ جو کچھ آج بھی ہورہا ہے اگرچہ یہ سیاسی ہے مگر دراصل یہ سب مکافات عمل ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے وزارت چھوڑنے کے احتجاج کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لیے ممکن ہے کہ یہ جلد ہی محض کسی وفاقی شخصیت کی ایک فون کال یا پی ٹی آئی کے چند رکنی وفد کے بہادرآباد کے دورے کے دوران ہی وزرات سے علٰیحدگی کا فیصلہ واپس لے لے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خالد مقبول صدیقی کو سائنس و ٹیکنالوجی کے بجائے کوئی اور وزارت دیدی جائے اور وہ دوبارہ وزیر بن کر خاموش ہوجائیں۔ متحدہ کے رہنماء کا وزارت سے علٰیحدہ ہونا اگر اختیارات اور بے فائدہ ہونے کی وجہ سے ظاہر کیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ ساڑے تین سال تک متحدہ وفاق میں بغیر وزارت کے ’’جی‘‘ سکے گی؟ اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ دو میں سے ایک وزارت احتجاجاً چھوڑنے کا فیصلہ ماضی کے ان احتجاج سے کم نہیں ہے جو الطاف حسین کی متحدہ میں کیے جاتے تھے۔