افواہ سازی کی مذمت

1710

ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی

آج کے دور میں جہاں اور بہت سی بْرائیاں اور بداخلاقیاں ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھارہی ہیں، ان میں ایک بہت بڑی بیماری افواہیں پھیلانے کی ہے۔ شاید افواہیں پھیلانے والوں کو یہ اندازہ بھی نہ ہو کہ بسااوقات اس کے منفی اثرات معاشرے اور مملکت دونوں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں، اور جس کے تباہ کن اثرات سے خود افواہ سازی کا کام کرنے والے بھی نہیں بچ سکتے۔
شرعی نقطۂ نظر سے افواہیں پھیلانا یا افواہوں کے ذریعے معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلانا ایک بدترین جرم ہے۔ اس لیے کہ افواہیں بغیر کسی بنیاد کے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان نہ صرف نفرت و حقارت پیدا کرتی ہیں، بلکہ بسااوقات بلاوجہ لڑائی جھگڑے کا سبب بھی ہوتی ہیں۔ افواہوں کے مہلک اور مضر اثرات کے پیش نظر اسلامی مملکت کے شہریوں پر یہ فریضہ شرعاً عائد ہوتا ہے کہ وہ خود کسی قسم کی افواہیں نہ پھیلائیں، بلکہ افواہیں پھیلانے والوں پر بھی کڑی نظر رکھیں اور انھیں بھی افواہیں نہ پھیلانے دیں۔ من گھڑت اور جھوٹی باتیں نہ صر ف دْنیوی اعتبار سے جرم ہیں، بلکہ آخرت میں بھی اس جرم کی پاداش میں سخت سزا بھگتنا پڑے گی۔
افواہیں خواہ حکومت کے خلاف ہوں یا کسی ادارے کے، جماعت مسلمین کے کسی فرد کے خلاف ہوں یا اْمت ِ مسلمہ کے کسی طبقے کے خلاف، ہرحالت میں قابلِ مذمت ہیں۔ تاریخ میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ چند افراد کی پھیلائی ہوئی باتیں پوری قوم کے لیے شرمندگی اور پریشانی کا باعث بن گئیں، اور اس کے سنگین نتائج آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے۔
عہد ِ نبویؐ میں افواہیں پھیلانے کا کام منافقین کیا کرتے تھے۔ منافقین نہ ملّت اسلامیہ کے خیرخواہ تھے اور نہ مملکت اسلامیہ کے۔ وہ ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے کہ کوئی موقع ملے تو ملّت اسلامیہ پر بھرپور وار کریں۔ خصوصاً ان حالات میں جب مسلمانوں پر جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہوتا تھا تو ان کی تخریبی سرگرمیاں مزید تیز تر ہوجاتی تھیں۔ منافقین کبھی خوف و ہراس پھیلانے کے لیے افواہیں پھیلایا کرتے تھے اور کبھی کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لیے غلط قسم کا اطمینان پیدا کرنے کے لیے بے بنیاد اور مبالغہ آمیز خبریں پھیلاتے تھے۔ قرآنِ حکیم نے اس کا سدّباب کرنے کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب اس قسم کی غیرمصدقہ خبر یا افواہ پہنچے تو اْسے ہرگز لوگوں میں نہ پھیلایاجائے، بلکہ اس قسم کی بے بنیاد خبروں اور افواہوں کے بارے میں ارباب حل و عقد کو آگاہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ اس قسم کی افواہوں کا جائزہ لیں اور ٹھیک ٹھیک صورتِ حال سے ملّت کو آگاہ کریں۔ اگر کوئی بات صحیح ہے اور اْمت کو اس سے آگاہ کرنا ضروری ہے تو حکومت خود اس خبر کی اشاعت کرے گی، اور معاشرے میں محض بے چینی یا فتنہ و فساد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور افواہوں کے مضر اثرات کی روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات اْٹھائے گی۔
’’اور جب اْن کو کوئی بات امن یا خطرے کی پہنچتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں۔ اگر یہ اس کو رسول اور اپنے اولوالامر کے پاس پہنچا دیں تو وہ بات ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ بات کی تہہ تک پہنچ جائیں اور صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کے سوا تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔ (النساء 83)
اس آیت میں افواہیں پھیلانے کو شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے اور ذمے دار شہریوں پر یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ کوئی افواہ سنیں تو اربابِ حل و عقد کو اِس سے آگاہ کریں، خود اس افواہ کو بیان کر کے نہ پھیلائیں۔ بلاوجہ سنی سنائی بات کو لوگوں میں بیان کر کے اس مقصد میں شریک نہ ہوں، جو کوئی بدکردار اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والا فرد افواہ پھیلا کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہؐ نے ایک بڑا سنہری اْصول بیان فرمایا ہے، جو ایک دستوری ہدایت بھی ہے: گناہ کے لیے یہ بات کافی ہے کہ انسان ہرسنی سنائی بات بیان کرنے لگے۔ (سنن ابوداؤد)