بحری سفر اور قصہ دجال

1037

سیدہ فاطمہ بنت قیسؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کے منادی کو سنا، وہ اعلان کررہا تھا: ’’الصلاۃْ جامعۃ‘‘۔ میں نماز کے لیے نکلی اور رسول اللہؐ کے ساتھ (مردوں کے پیچھے عورتوں کی صف اول میں) (ظہرکی) نماز ادا کی۔ آپؐ نماز سے فارغ ہوکر منبر پر بیٹھے (جب کہ اس دن سے پہلے سوائے جمعہ کے منبر پر نہیں چڑھتے تھے)، آپؐ کے چہرے پر اس وقت مسکراہٹ تھی، آپؐ نے فرمایا: ہر شخص اپنی اپنی جگہ بیٹھا رہے، اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: جانتے ہو میں نے تم کو کیوں جمع کیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا اللہ و رسولہ اعلم۔ آپؐ نے فرمایا بخدا! میں نے تم کو نہ تو مال وغیرہ کی تقسیم کے لیے جمع کیا ہے، نہ کسی جہاد کی تیاری کے لیے، بس صرف اس بات کے لیے جمع کیا ہے کہ تمیم داری پہلے نصرانی تھا، وہ آیا اور مسلمان ہوگیا اور مجھ سے ایک قصہ بیان کرتا ہے (میں اس سے خوش ہوا، میں چاہتا ہوں کہ تم سے بیان کروں) جس سے تم کو میرے اس بیان کی تصدیق ہوجائے گی، جو میں نے کبھی دجال کے متعلق تمہارے سامنے ذکر کیا تھا۔
وہ کہتا ہے کہ ایک بڑی کشتی میں سوار ہوا، جس پر سمندروں میں سفر کیاجاتا ہے، ان کے ساتھ قبیلہ لخم اور جذام کے تیس آدمی اور تھے۔ سمندر کا طوفان ایک ماہ تک ان کا تماشا کرتا رہا، آخر مغربی جانب ان کو ایک جزیرہ نظر آیا، جس کو دیکھ کر وہ بہت مسرور ہوئے اور چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر اس جزیرہ پر اتر گئے۔ سامنے سے ان کو جانور کی شکل کی ایک چیز نظر پڑی، جس کے سارے جسم پر بال ہی بال تھے کہ ان میں اس کے اعضائے مستورہ تک کچھ نظر نہ آتے تھے۔ لوگوں نے اس سے کہا کمبخت تو کیا بلا ہے؟ وہ بولی میں دجال کی جاسوس ہوں، چلو! اس گرجے میں، وہاں ایک شخص ہے، جو تمہاری خبروں کا مشتاق ہے، یہ کہتے ہیں کہ جب اس نے ایک آدمی کا ذکر کیا تو اب ہم کو ڈر لگا کہ کہیں وہ کوئی جن نہ ہو۔ ہم لپک کر گرجے میں پہنچے تو ہم نے ایک بڑا قوی ہیکل شخص دیکھا کہ اس سے قبل ہم نے ویسا کوئی شخص نہیں دیکھا تھا، اس کے ہاتھ گردن سے ملاکر اور اس کے پیر گھٹنوں سے لے کر ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے نہایت مضبوطی سے جکڑے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا: تیرا ناس ہو، تو کون ہے؟ وہ بولا تم کو میرا پتا کچھ نہ کچھ لگ ہی گیا۔ اب تم بتاؤ تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے کہا: ہم عرب کے باشندے ہیں، ہم ایک بڑی کشتی میں سفر کررہے تھے، سمندر میں طوفان آیا اور ایک ماہ تک رہا۔ اس کے بعد ہم اس جزیرے میں آئے تو یہاں ہمیں ایک جانور نظر آیا، جس کے تمام جسم پر بال ہی بال تھے، اس نے کہا میں (جساسہ) جاسوس ہوں، چلو اس شخص کی طرف جو اس گرجے میں ہے، اس لیے ہم جلدی جلدی تیرے پاس آگئے۔ اس نے کہا: مجھے یہ بتاؤ کہ بیسان (شام میں ایک بستی کا نام ہے) کی کھجوروں میں پھل آتا ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا: ہاں آتا ہے۔ اس نے کہا: وہ وقت قریب ہے جب اس میں پھل نہ آئے۔ پھر اس نے پوچھا: اچھا بْحیرئہ طبریہ کے متعلق بتاؤ، اس میں پانی ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا بہت ہے، اس نے کہا: وہ زمانہ قریب ہے جب اس میں پانی نہ رہے گا۔ پھر اس نے پوچھا: زْغَر (شام میں ایک بستی کا نام ہے) کے چشمہ کے متعلق بتاؤ اس میں پانی ہے یا نہیں؟ اور اْس بستی والے اپنے کھیتوں کو اس کا پانی دیتے ہیں یا نہیں؟ ہم نے کہا: اس میں بھی پانی بہت ہے اور بستی والے اسی کے پانی سے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ پھر اس نے کہا: اچھا نبی الامیین کا کچھ حال سناؤ۔ ہم نے کہا: وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے ہیں۔ اس نے پوچھا کیا عرب کے لوگوں نے ان کے ساتھ جنگ کی ہے؟ ہم نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا: اچھا پھر کیا نتیجہ رہا؟ ہم نے بتایا کہ وہ اپنے گرد و نواح پر تو غالب آچکے ہیں اور لوگ ان کی اطاعت قبول کرچکے ہیں۔ اس نے کہا سن لو! ان کے حق میں یہی بہتر تھا کہ ان کی اطاعت کرلیں (نبی آخر الزماں کی بعثت کی خبر سن کر اس نے مارے خوشی کے چھلانگ لگائی) اور اب میں تم کو اپنے متعلق بتاتا ہوں، میں مسیح دجال ہوں اور وہ وقت قریب ہے جب مجھ کو یہاں سے باہر نکلنے کی اجازت مل جائے گی، میں باہر نکل کر تمام زمین میں گھوم جاؤں گا اور چالیس دن کے اندر اندر کوئی بستی ایسی نہ رہ جائے گی جس میں داخل نہ ہوں، بجز مکہ اور طیبہ کے کہ ان دونوں مقامات میں میرا داخلہ ممنوع ہے، جب ان دونوں میں سے کسی بستی میں داخل ہونے کا ارادہ کروں گا اس وقت ایک فرشتہ ہاتھ میں ننگی تلوار لیے سامنے آکر مجھے داخل ہونے سے روک دے گا اور ان مقامات کے جتنے راستے ہیں ان سب پر فرشتے ہوں گے، جو ان کی حفاظت کررہے ہوں گے۔
فاطمہ بنت قیسؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے اپنی لکڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ وہ طیبہ یہی مدینہ ہے۔ یہ جملہ تین بار فرمایا۔ دیکھو! کیا یہی بات میں نے تم سے بیان نہیں کی تھی؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! آپ نے بیان فرمائی تھی۔ اس کے بعد فرمایا: دیکھو! وہ بحر شام یا بحر یمن بلکہ مشرق کی جانب ہے اور اسی طرف ہاتھ سے اشارہ فرمایا۔ (مسلم شریف)