سب کو ساتھ لے کر چلنے والے!(قاضی حسین احمد ؒ)

536

 

۲۰۱۳ء کے آغاز میں ملت بیضا کے پرکشش راہ نما، امتِ اسلامیہ کے گوہرِ آبدار، مردِ مجاہد قاضی حسین احمد دنیا کی تنگ نائیوں سے آخرت کی وسعتوں کو سدھار گئے۔ وہ پیدائشی طور پر قائدانہ صلاحیتوں سے مالامال تھے۔ اللہ ایسے بندوں سے خاص کام لیتا ہے جو ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی یادگار رہتے ہیں۔
قاضی صاحب ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ مرحوم نے امت کی راہنمائی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ افغانستان ہو یا کشمیر، عراق ہو یا فلسطین، چیچنیا ہو یا برما، بوسنیا وہرزیگووینا ہو یا فلپائن، وہ ہر جہاد کے روح رواں تھے۔ انھوں نے ہر ایک جہادی تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا اور اس کا اعتراف ان تمام مقامات کے مجاہدین وقائدین کھلے دل سے کرتے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں ان جیسی ہمہ پہلو اور پرکشش شخصیت کہیں نظر نہیں آتی۔ وہ دیدہ ور تھے اور اس وقت تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاعر نے انھی کے لیے کہا تھا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ظالم اور ظلم کو للکارنا قاضی صاحب کے خون میں شامل تھا۔ ان کی غیرت گوارا نہیں کرتی تھی کہ مظلوم کو بے یارومددگار چھوڑا جائے۔ لاہور کے قریب بھارت کی سرحد سے ملحق علاقوں میں قبضہ گروپوں اور غنڈہ گرد مافیا کے خلاف ان کی جدوجہد بھی لوگوں کو یاد ہے۔ کشمیری مسلمانوں کے لیے مسلسل جدوجہد اور ان کی مکمل حمایت قاضی صاحب کی پہچان تھی۔ انھوں نے ۱۹۹۰ء میں کشمیری عوام کے ساتھ یوم یک جہتی کے لیے 5 فروری کو ملی و بین الاقوامی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس فکر کو شرفِ قبولیت بخشا اور وہ دن اور آج کا دن یہ تاریخ یوم ِیک جہتیٔ کشمیر کی علامت بن گئی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بھی اسے قومی تعطیل اور یوم احتجاج کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے اور پوری دنیا میں مسلمان اس روز جہاد و حریتِ کشمیر کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ عظیم صدقۂ جاریہ بھی ہے اور مرحوم کی قبولیتِ دعا کی علامت بھی! بقول اقبال:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن ، نئی شان
گفتار میں ، کردار میں اللہ کی برہان!
یہ راز کسی کو نہیں معلوم ، کہ مومن
قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن!
فطرت کا سرودِ ازلی ، اس کے شب وروز
آہنگ میں یکتا ، صفت سورتِ رحمان!
قاضی صاحب نے بطور امیر جماعت اسلامی پاکستان اپنے دورِ امارت میں جو کاروانِ دعوت ومحبت چلایا تھا اس نے ملک بھر میں لسانی ونسلی اور سیاسی ومذہبی نفرتوں کے مقابلے میں اسلامی اخوت ومحبت کا پرچار کیا۔ مہینے بھر کی یہ کٹھن مہم بہت مشکل اور تھکا دینے والی تھی۔ ہر روز نیا سفر اور نئی منزلیں، قیام وطعام کے مسائل ومشکلات، سفر کی تھکاوٹ اور بے آرامی، کوئی چیز قاضی صاحب اور ان کے کاروان کے لیے سدِّراہ نہ بن سکی۔ مذہبی ودینی جماعتوں کے درمیان روایتی وتاریخی دوریاں، نفرتوں کے الاؤ بھڑکانے کا سبب بن رہی تھیں۔ اس آگ کو بجھانا ملک و ملت کے مفاد و سلامتی کا تقاضا تھا مگر یہ کام کوئی آسان نہ تھا۔ قدم قدم پر مشکلات اور رکاوٹیں، راستے تنگ اور گلیاں بند، کئی لوگ اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دیتے۔ قاضی صاحب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور بڑے عزم اور قوت ارادی سے کام لیتے ہوئے، اپنی مضبوط شخصیت کے ساتھ میدان میں اترے اور نفرتوں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی۔
شیعہ سنی مسئلہ اگرچہ ابھی تک مکمل اور حتمی طور پر تو حل نہیں ہوسکا مگر قاضی صاحب نے ملی یکجہتی کونسل کے تحت دونوں متحارب گروہوں کو ایک میز پر اکٹھا کیا، ان کے درمیان مذاکرات ہوئے اور کئی موضوعات پر باہمی رواداری کی فضا بھی پیدا ہوئی۔ جماعت اسلامی کے ساتھ سیاسی میدان میں جن مذہبی جماعتوں کا ٹکرائو ہوتا تھا ان میں جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ آپس میں افہام و تفہیم کے فقدان نے بلاوجہ ان پارٹیوں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے متنفر کر دیا تھا۔ قاضی صاحب کی کوششوں سے متحدہ مجلس عمل وجود میں آئی تو مولانا شاہ احمد نورانی اور قاضی صاحب کے درمیان اتنا قرب پیدا ہوا کہ دونوں ایک دوسرے سے بے پناہ محبت اور احترام کے رشتوں میں جڑ گئے۔ قاضی صاحب کسی بھی مسلک کے دینی ادارے اور مدرسے میں چلے جاتے، ہر مسلک کے اساتذہ و طلباوالہانہ ان کا استقبال کرتے۔ یہی کیفیت عالمی اسلامی تحریکوں کے کارکنان و قیادت کی تھی۔ قاضی صاحب کو دیکھتے ہی وہ ان کی طرف لپکتے، ان کی پیشانی، چہرہ اور ہاتھ چومنے لگتے۔
قاضی صاحب کی شخصیت ایک عالمی راہ نما کے طور پر مسلمہ تھی۔ ترکی، ایران، افغانستان، عالمِ عرب، یورپ ، امریکہ، افریقہ، جنوبی ایشیا اور مشرقِ بعید کے تمام ممالک میں اسلامی اور جہادی تحریکیں دینی اور تبلیغی مراکز، علمی اور تحقیقی ادارے، ہر ایک میں قاضی صاحب کا تعارف بھی موجود تھا اور لوگ دل سے ان کی قدر بھی کرتے تھے۔ جس طرح اپنے ملک کے اندر انھوں نے مختلف گروہوں کو مختلف اوقات میں مشترکہ و متفقہ اصولوں پر جمع کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا اسی طرح عالمی سطح پر بھی مختلف اسلامی ملکوں کے اندرونی اور بین الملکی اتحادوں کے لیے بھی انھوں نے بیش بہا خدمات سرانجام دیں۔ قاضی صاحب اہل ایمان کے درمیان مصالحت و امن کے لیے ہر ایک راہ نما کے پاس چل کر جاتے اور دردِ دل کے ساتھ اتحاد اور اخوت کی اپیل کرتے۔ جہاں تک باطل اور طاغوت سے مقابلے کا معاملہ تھا، اس میدان میں وہ مداہنت، کمزوری یا کسی قسم کی رورعایت کے روادار نہ تھے۔ ان کی زبان سے بارہا لوگوں نے سنا
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے!
فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطین کا پرستار کرے!
قاضی صاحب کو اللہ کی طرف سے اچانک بلاوا آگیا اور وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ آخری دم تک میدانِ جہاد میں سرگرم عمل رہے۔ ۲۶دسمبر ۲۰۱۲ء کو جماعت اسلامی کے عظیم راہنما پروفیسر غفور احمد صاحب کا انتقال ہوا۔ قاضی صاحب ان کے جنازے کے لیے کراچی تشریف لے گئے۔ انھوں نے جنازے کے موقع پر مجمع عام کے سامنے بھی اپنے ساتھی اور دوست کی جدائی پر اپنے غم کا اظہار کیا اور پھر اپنے مضمون میں بھی ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ کون جانتا تھا کہ جس قریبی ساتھی کے غم میں قاضی صاحب پر بار بار رقت طاری ہوتی تھی، وہ اتنی جلد اس سے جا ملنے والے تھے۔ قاضی صاحب کا جنازہ موٹروے چوک پشاور کے وسیع و عریض میدان میں پہنچا تو ہزاروں کی تعداد میں ان کے عشاق و مداحین، دست و بازو اور بیٹے، ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کا عہد کرنے والے، پیرو جوان، سسکیوں اور آہوں، آنسوئوں اور نعروں کے ساتھ اس سانحۂ ارتحال پر غم زدہ و نڈھال نظر آرہے تھے۔ جنازہ ٹھیک تین بجے ہونا تھا۔ ہر جانب سے لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ چلے آرہے تھے ۔تین بجے سے پہلے ہی کھلا میدان اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرتا نظر آیا۔جنازے میں موجود لوگ جب مرحوم کا آخری دیدار کرنے ان کی چارپائی کے پاس آتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے اشک آلود آنکھیں اور غمزدہ چہرے کہہ رہے ہوں
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور!
مجھے شیخ سعدیؒ یاد آئے اور میں بس ایک شعر پڑھ کے رہ گیا
بگذار تابہ گِریم چوں ابر در بہاراں
کز سنگ نالہ خیزد وقتِ وداعِ یاراں!
جنازے سے قبل پروفیسر محمد ابراہیم، سراج الحق، لیاقت بلوچ، مولانا طیب طاہری، جاوید ہاشمی، جنرل حمید گل، مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن، آصف لقمان قاضی اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے مختصر خطاب کیے اور ہر ایک نے کہا کہ آج کا غم اس کا ذاتی غم بھی ہے اور یہ پوری امت کا دردِ مشترک بھی ہے۔ ٹھیک تین بجے منور حسن صاحب نے جنازہ پڑھایا۔ بے پناہ ہجوم میں ہر جانب سے نماز کے دوران آہوں اور سسکیوں کی آوازیں آتی رہیں۔ جنازے کے بعد میت مرحوم کے آبائی گائوں زیارت کاکا صاحب میں ان کے آبائی قبرستان میںدفن کر دی گئی، جہاں وہ اپنے خاندان کے دیگر مرحومین کے ساتھ محوِ استراحت ہیں۔ پوری دنیا میں مسلسل تعزیتی ریفرنس منعقد ہوتے رہے۔ حرم مکی و مدنی میں، نیز مشرق و مغرب کے ہر ملک میں غائبانہ نماز ہائے جنازہ پڑھی گئیں۔ ہر شخص مرحوم کی خوبیوں اور عظمتوں کو سلامِ عقیدت پیش کر رہاتھا۔ اپنے ہی نہیں بیگانے بھی، ہم خیال و ہم مشرب ہی نہیں، نظریاتی اختلاف رکھنے والے بھی اعتراف کر رہے تھے کہ جانے والا عظیم تھا! وہ دلوں میں آج بھی بستا ہے اور پورا ماحول زبانِ حال سے کہے جارہا ہے،؎
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
میرا جی چاہتا تھا کہ لکھتا ہی چلا جائوں۔ اتنی حسین یادیں، اتنا شیریں دورِ رفاقت اور ایسا پیار بھرا تعلق، مگر کیا کروں کہ مرحوم کی وفات نے نڈھال و مضمحل کر دیا تھا۔ زندگی رہی تو مزید یادیں بھی ان شاء اللہ قلم بند کروں گا۔ مرحوم کی وفات پر تو قلبِ حزیں اور قلمِ شکستہ کے ساتھ لکھی گئی اس تحریر کو یہیں ختم کرنا پڑا تھا۔ پر امید دل کے ساتھ اللہ کے حضور یہ آرزو پیش کرتا ہوں کہ وہ خالق و مالک اس مردِ مجاہد کو زمرہ شہدا میں شامل فرما کر اپنے بے پایاں انعامات سے مالا مال کردے۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے!