مجا ہد ملت قاضی حسین احمد ؒ ۔۔۔چند باتیں،چند یادیں !!

983

سینیٹر سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان

قاضی حسین احمد ایک جہد مسلسل کا نام ہے وہ پارے کی طرح ہر وقت حرکت میں رہنے والی شخصیت تھے ۔مایوسی کا لفظ ان کی کتاب میں نہیں تھا ۔جس طرح حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے فرمایا تھا کہ اس سے پہلے کہ موت میری طرف آئے کیوں نہ میں موت کا بڑھ کر استقبال کروں ۔وہ چاہتے تھے کہ چلتے چلتے ان کی زندگی کا اختتام اللہ کے رستے پر ہو۔قاضی حسین احمدؒ ایک روایتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ وہ ایک کارکن کے طور پر جماعت اسلامی میں آئے اور نا صرف جماعت اسلامی بلکہ امت کے قائد کے طور پر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔قاضی صاحب علمی دنیا سے تعلق رکھتے تھے ،بنیادی طور پر وہ جغرافیہ کے پروفیسر تھے اور سیدو شریف کالج سوات میں پڑھاتے رہے ۔اس لیے آخری لمحہ تک ان کا انداز ایک معلم اور مربی کا رہا ۔
قاضی حسین احمد ؒ نے سید مودودی ؒ کا لٹریچر نثر میں پڑھا تھا مگر اس کا اظہار وہ علامہ اقبال ؒ کے اشعار میں کرتے تھے ۔علامہ اقبال کا اردو اور فارسی کلام انہیں ازبر تھا خاص طور پر فارسی کلام پر تو انہیں ایسی دسترس حاصل تھی کہ اپنے خطاب اور تقریر میں اشعار پڑھتے تو ایسا لگتا کہ حکیم الامت ؒ نے یہ شعر دراصل کہا ہی اس موقع کے لیے تھا۔
قاضی صاحب ؒ کوئی بات بھی اپنے دل میں چھپا کر نہیں رکھتے تھے میں محسوس کرتا ہوں کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے زیادہ روشن تھا ۔اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے والے انسان تھے ، اپنے بعض سیاسی فیصلوں کے بارے میںبرملا اظہارکرتے تھے ،2008کے انتخابات کے بائیکاٹ کے حوالے سے ان کا اعتراف تھا کہ ہمیں الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے تھا۔جب قاضی حسین احمد ؒ امیر جماعت بنے میں ان دنوں صوبہ سرحد کا اسلامی جمعیت طلباء کا ناظم تھا اور بعد میں 88میںجمعیت کا ناظم اعلیٰ منتخب ہوا۔ہم پشاور یونیورسٹی میں ہوتے تھے قاضی صاحب جب بھی پشاور آتے ہم فجر کی نماز ان کی امامت میں پڑھنے کے لیے ان کے گھر جاتے تھے اور صبح کی واک میں ان سے مشاورت کرتے تھے ۔واک کے دوران وہ انتہائی شفقت اور محبت سے ہماراہاتھ پکڑ کر سنجیدہ مسائل پر ہماری راہنمائی فرماتے تھے ۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار رمضان کے مہینے میں ہم روزہ رکھ کر پشاور سے نکلے اور کوہاٹ ،بنوں ، کرک اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچے ،راستے میں پانی اور کھجو ر سے روزہ افطا ر کیا،سحری میں قریبا تین گھنٹے باقی تھے ۔سبھی تھکے ہوئے تھے جہاں پڑے سو گئے لیکن جب ہم سحری کے لیے اٹھے تو قاضی صاحب اسی طرح ہشاش بشاش تھے اور اپنے گھر میں ہماری میزبانی کررہے تھے ۔پھر وہ ہمیں فجرپڑھاتے ہی اسلام آباد میںکسی میٹنگ میں چلے گئے ۔
قاضی حسین احمد ؒ نے افغان جہاد میں بنیادی کردار ادا کیا،آج جس طرح پاکستان کے عوام ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اسی طرح افغان عوام ان سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔افغان قیادت گل بدین حکمتیار سے لیکر کرزئی تک اور پروفیسر برہان الدین ربانی سے لیکر صبغت اللہ مجددی تک ،یہ سب قائدین افغان جنگ کے دوران قاضی حسین احمد ؒ کے بہت قریب رہے ہیں ۔بلکہ ان میں سے کئی لیڈر تو قاضی حسین احمد ؒ کے گھر میں کئی کئی ماہ تک قیام پذیر رہے ۔افغان راہنمائوں نے ہمیں بتایا کہ جب ہم پشاور آتے تو قاضی صاحب فارسی میں جہاد کے بارے میںلٹریچر چھپوا کر ہمیں دیتے ۔اس طرح قاضی صاحب بوسنیا اور چیچنیا کی آزادی پسند تحریکوں کے قائد ین کے ساتھ قریبی روابط رکھتے تھے ۔1989میں ،میں بنگلا دیش گیا اور ڈھاکہ سے آگے کوکس بازار ،بنگلا دیش اور برما کے درمیان پہاڑی علاقے میں برما کے مظلوم و مجبور مہاجرین نے لالٹین کی روشنی میں اجتماع رکھا،وہاں روہنگنیا مسلمانوں سے تعارف ہوا تو انہوں نے قاضی صاحب سے انتہائی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین تھا کہ قاضی صاحب ہماری مدد کو ضرور آئیں گے اور ہماری سرپرستی کریں گے ۔
سوڈان کی حکومت اور وہاں کی اسلامی تحریک کے درمیان تنازعہ اور فاصلے بڑھ گئے تو ان کی صلح کے لیے بھی قاضی صاحب تشریف لے گئے ۔دونوں فریقین نے باہم رضا مندی سے قاضی صاحب کو اپنا ثالث تسلیم کیا تھا ۔دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمانوں پر کوئی آفت آتی ،انہیں کسی پریشانی اور مصیبت کا سامنا ہوتا تو قاضی صاحب خو دوہاں پہنچتے یا جماعت کے ذمہ داران کا وفد بھیجتے ۔قاضی صاحب اس شعر کے مصداق تھے کہ ؎
’’سارے جہاں کا درد گویاہمارے جگر میں ہے ‘‘
قاضی صاحب پاکستان میں ایک ایسی سوسائٹی کے چاہتے تھے جہاں ایک انسان دوسرے کا غلام نہ ہو،وہ ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے جس میں نیکی کرنا آسان اور بدی کرنا مشکل ہواور چاروں طرف ایک دوسرے سے محبت ،ہمدردی اور غمگساری کرنے اور ایک دوسرے کا غم بانٹنے والے ہوں ۔جب میں جماعت اسلامی کی شوری کے اجلاس میں پہلی بار شریک ہوا تو قاضی صاحب نے اپنے خطاب سے پہلے جو آیات تلاوت کیں ان کا مفہوم یہ تھا کہ ’’تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ جب اللہ کے راستے میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ گئے ،کیا تم نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں پسند کیا ہے ؟اور یہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ۔(التوبہ)
میں ان دنوں طالب علم تھا جب قاضی صاحب جمعیت کے پروگرام میں تشریف لائے تو انہوں نے اپنے خطاب میں اسلامی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا فقدان قرار دیا تھااور فرمایا تھا کہ عالم اسلام تو ایک سمندر ہے مگر قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ سمندر ایک معمولی قطرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔ان کی زبان سے سنے اقبال ؒ کے اشعار آج بھی مجھے یاد ہیں ۔ ؎
تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزارکرے
موت کے آئینے میں دکھا کر تجھ کورخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہ ء ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
قاضی حسین احمد ؒ اسلاف کی ایک جیتی جاگتی تصویر اور نشانی تھے ۔ان کے اندرامت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا وہ بلا شبہ اتحاد امت کے سب سے بڑے داعی تھے، مسلمانوں کو قرآن و سنت پر جمع کرنے کے لیے ہمیشہ بے چین اورمتحرک رہتے ۔ صاف گو اتنے کہ ان کے دل میں جو بات ہوتی تھی وہی زبان پر ہوتی اورا گرکبھی زبان سے نہ بھی کہتے تو ان کے چہرے پر وہ بات لکھی ہوئی پڑھی جاسکتی تھی ۔ملک میں شیعہ اور سنی فسادات پر قاضی صاحب بہت مضطرب اور پریشان رہتے ،انہوں نے اس آگ کو بجھانے میں پانی کا کردار ادا کیا ،کوئٹہ میں امام بارگاہ پر حملہ ہواتو وہاں پہنچ کر انہوں نے دشمن کو پیغام دیا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کیوں ہورہا ہے؟، ہم سب ایک ہیں اور دشمن کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے
قاضی صاحب نے مختلف سیاسی اور دینی اتحاد قائم کیے ،وہ آئی جے آئی میں شریک رہے اگر چہ وہ تجربہ بھی خوشگوار نہیں تھا۔قاضی صاحب نے اسلامک فرنٹ بنایا ،لیکن جماعت کو ایک اور متحد رکھنے کے لیے انہوں نے دوبارہ جماعت کے نام اور جھنڈے سے انتخابات میں جانا ہی بہتر سمجھا ۔ دینی جماعتوں اور مختلف مکتبہ فکر کو متحد کرنے کے لیے انہوں نے ملی یکجہتی کونسل بنائی ، قاضی صاحب کے اندر سالار قافلہ کی وہ تمام خوبیاں جمع تھیں جو ہمیں قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں ملتی ہیں وہ بہت سرعت سے چلتے تھے ،جب ہم انہیں جمعیت کے پروگراموں اور ریلیوں وغیرہ میں دیکھتے تو وہ جوانوں سے زیادہ تیز چلتے تھے ،حتی کہ جب انہیں دل کی تکلیف ہوگئی اور ڈاکٹروں نے انہیں تیز چلنے سے منع کردیا تب بھی وہ اپنی عادت کے مطابق ہمیشہ دوسروں سے آگے ہوتے ۔
قاضی صاحب مذہبی جماعتوں کو متحد اوراکٹھا کرنے کے لیے ہمیشہ متحرک رہے ،ان کی شدید خواہش تھی کہ دینی جماعتیں ایک ہو کر سیکولر جماعتوں کا مقابلہ کریں تاکہ پاکستان کو اس کی شناخت اور نظریے سے محروم کرنے کی جو سازشیں ہورہی ہیں ان کو ناکام بنایا جاسکے ۔اس مقصد کے لیے انہوں نے دیگر قائدین کے ساتھ مل کر 2002میں متحدہ مجلس عمل بنائی ،یہ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا کامیاب ترین تجربہ تھا ۔ایم ایم اے کے 68ارکان اسمبلی میں پہنچے اور ایم ایم اے خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوئی ۔پرویز مشرف کے مارشل لاء کو سب سے پہلے قاضی صاحب نے چینلج کیا تھا۔یہ قاضی صاحب ہی کی للکار تھی کہ یہ ترکی نہیں ہے کہ پرویز مشرف اتا ترک بننے کی کوشش میں ہیں۔یہ پاکستان ہے جس کی بنیاد لا لہ الا اللہ ہے ۔
چائنا کے دورے میں ہم قاضی صاحب کے ساتھ تھے ،چائنا کی قیادت کے ساتھ طویل مجالس بھی ہوئیں ،جب ایک چینی ذمہ دار نے چائنا میں مقیم مسلمانوں کے بار ے میں کہا کہ یہ یہور مسلمان ہیں تو قاضی صاحب نے اسی وقت ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اب یہ چائنیزمسلمان ہیں ،ان کو آپ غیر نہیں اپنا ہی سمجھیں۔قاضی صاحب مشورے اور وقت کے کتنے پابند تھے اس کی ایک مثال چائنا کے اسی دورے کے دوران میرے سامنے آئی ،چائنا میں ہمارے پروٹوکول افسر آکر جب قاضی صاحب سے پوچھتے کہ کھانا ،ناشتہ یا ڈنر کس وقت کریں گے تو وہ کہتے کہ ہم مشور ہ کرکے آپ کو بتاتے ہیں ،پھر وہ ہم سے مشورہ لیتے ۔اگر وہ کہتے کہ ناشتہ ہم صبح آٹھ بجے کریں گے تو ہمیں ساتھ لیکر وہ ٹھیک آٹھ بجے ناشتے کی میز پر پہنچ جاتے ۔جب ہم واپس آنے لگے تو چینی میزبانوں نے بتایاکہ ہمارے پاس دنیا بھر سے وفود آتے ہیں لیکن جس وفد نے ہمارے پروٹوکول افسروں کو بھی متاثر کیا ہے وہ جماعت اسلامی کا ہے ۔اسی دورہ کے دوران چائنا کی کیمونسٹ پارٹی کے ساتھ ہم نے تیرہ نکاتی یادداشت پر دستخط کیے ۔اس میمو رنڈم میں مسئلہ کشمیر سرفہرست تھا ۔قاضی صاحب مسلم و غیر مسلم جس ملک کے دورے پر بھی ہوتے وہاں مقبوضہ مسلم علاقوں خاص طور پر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے ضرورآواز اٹھاتے ۔