پروفیسر غفور احمد ایک تعارف

1576

پاکستانی سیاست میں ایسے افراد بہت ہی کم ہیں جن کی پوری زندگی جدو جہد سے عبارت ہو۔جنہوں نے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے ہوںاور جن کا ہر عمل جمہوریت پسندوں کے لیے مشعل ِ راہ ہو۔پاکستانی سیاست کے لیے مہدی کا کردار ادا کرنے والی ہستی پروفیسر غفور احمد صاحب کی تھی ۔
پیدائش و تعارف : پروفسیر غفور احمد صاحب ۱۱جون ۱۹۲۷؁ء کو بھارت کی ریاست یوپی میں پیدا ہوئے،دینی خدمات ادا کرنے والی سر زمین بریلی میں غفور صاحب جیسے فرد کا پیدا ہونا بلاشبہ اس سرزمین کے لیے ایک اور فخر ہے۔غفور صاحب کی زندگی تواضع وانکساری،فراست ومعاملہ فہمی،عجز و شفقت ،خدمت وجہد اور صبر و عزیمت سے عبارت تھی۔تقسیمِ ہند کے بعد آپ نے ۱۹۴۹؁ میں کراچی ہجرت کی اور زندگی کا باقی حصہ کراچی میں گزارا ۔
تعلیم و تربیت: بریلی میں پیدائش ،بنیادی تعلیم و تربیت اوران کی مکمل زندگی ان کی اعلی تربیت کی غمازی کرتا ہے۔ انہوں نے بنیادی تعلیم بریلی میں حاصل کی۔۱۹۴۸؁ء میں لکھنو یونی ورسٹی سے ایم کام کیا ۔اور خود کو تعلیم و تعلم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔
تدریسی زندگی: یوں توان کی پوری زندگی تدریسی زندگی ہے ۔لیکن تعلم کی اصل زندگی ان کے ایم کام کے بعد شروع ہوئی۔ایم کام میں سند حاصل کرنے کے ایک سال بعد(۱۹۴۸؁ء)میں اسلامیہ کالج لکھنو میں لیکچرار کے طور پر خدمات انجام دیں۔ایک سال بعد پاکستان ہجرت کرنی پڑی اس لیے لیکچرار شپ چھوڑ کر کراچی میں ایک نجی تجارتی ادارے سے منسلک ہوگئے،بعد میں انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹس،جناح انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس اور انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس میں بطور معلم رہے۔آپ مختلف اوقات میں اردو کالج اور دیگر پروفیشنل اداروں میں بھی پڑھا تے رہے۔
پروفیسرغفور احمد،ایک مصنف: پروفیسر غفور احمد صاحب نے ملکی سیاست میں کلیدی کردار ادا کیا۔اس لیے سیاسی میدان کے مختلف تجربات و مشاہدات کو انہوں نے تصنیفی شکل دے کر تاریخ پاکستان کے طالب علموں کے لیے بیش قیمت خزانہ چھوڑ ا۔پروفیسر خورشید احمد کے مطابق پروفیسر صاحب کل آٹھ کتابوں کے مصنف ہیں جبکہ وکی پیڈیا ان کو پانچ کتابوں کا مصنف بتاتا ہے ۔۔۔۔ایک مدت تک پروفیسر غفورصاحب جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کی سیاسی قراردادیں مرتب کرتے رہے۔پروفیسر خورشید احمد کے بقول مرکزی شوریٰ کی سیاسی قراردادیں مرتب کرنے میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔اور بعد کے آنے والے ذمہ داران پربھی ان کا گہرا اثر پایاگیا۔
پروفیسر غفوراحمد، ایک سیاست: پروفیسر صاحب ایک سیاسی شخصیت ہی نہ تھے بلکہ وہ دراصل خود ایک سیاست تھے انہوں نے سیاست کو نیا رخ دیا،مخالفین سے مثالی ربط اور سلوک رہااور ۲۰ویں صدی کی سیاست میں ایک پاکباز و خدا ترس انسان کی صورت ابھرے۔پروفیسر صاحب کی زندگی کے ۵۲ سال ملکی سیاسی جدوجہد میں گزرے ،ہر دم فعال و بحال رہے،سیاست کے ہر محاذ سے واقف رہے،سیاسی مخالفین پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔
پروفیسر صاحب ۲۳ سال کی عمر میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اورپھر جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے انہوں نے ملکی سیاست میں حصہ لے کر عملی سیاست کا آغاز کیا اور زندگی کی آخری سانس تک جماعت اسلامی سے منسلک رہے۔پروفیسر خورشید احمد صاحب کے بقول ۱۹۴۴ ؁ء میں ان کے دوست انور یار خاںنے مولانا مودودی کی کتاب خطبات دے کر ان کو دعوت دی ،’’خطبات ‘‘ نے ان کی زندگی کو ایک نئی سمت دی اور ان کی زندگی پر خطبات نے گہرے اثرات مرتب کئے۔مولانا مودودی کی تصانیف سے قربت کی بدولت وہ جماعت اسلامی کے قریب ہوئے اور ۱۹۵۰؁ء میں جماعت اسلامی کراچی کے میدان سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔۱۹۵۸؁ء میں کراچی میٹروپولیٹن کارپورشن کے لیڈر رہے اور ان کی قیادت میں کارپورشن نے اعلی کامیابی حاصل کی۔۱۹۷۲؁ء سے ۱۹۷۷؁ء تک آپ جماعت اسلامی کراچی کے امیر رہے۔اور ۱۹۷۹؁ء میں نائب امیر جماعت اسلامی کی ذمہ داری پر فائز ہوئے۔
جماعت اسلامی جس دعوت کو لے کر اٹھی ہے اس کی راہ میں عزیمت کے بہت سے مراحل آتے ہیں۔خون کی دھار سے لے کر دارتک کے تمام مراحل میں پروفیسر غفور احمد صاحب جماعت اسلامی کے شانہ بشانہ رہے اور مصائب پر صبر جمیل کے پیکربنے رہے۔جنرل ایوب خان کے دور(۱۹۵۴؁ء ) میں پروفیسر غفوراحمد صاحب اپنے تمام مرکزی شوریٰ کے اراکین کے ساتھ ساڑھے نو ماہ جیل میں رہے۔
پارلیمانی جدوجہد: جماعت اسلامی کی طرف سے آپ دوبار قومی اسمبلی کے رکن رہے اور حزب اختلاف میں آپ کی نمایاںکارکردگی رہی۔آپ ۱۹۷۰؁ء سے ۱۹۷۷؁ء تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔۱۹۷۸؁ء سے ۱۹۷۹ تک وفاقی وزیرِ پیداوار کی ذمہ داری پر بھی فائز رہے۔غفوراحمد صاحب۱۹۷۸؁ء سے ۱۹۷۹ تک اور ۲۰۰۲؁ء سے ۲۰۰۵؁ء تک دوبار سینٹ کے رکن بھی رہے۔
زمانہء پارلیمانی میں پروفیسر غفور صاحب مختلف پارلیمانی تحریکوں وکمیٹیوں میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کرتے رہے۔آپ ۱۹۷۷؁ء سے ۱۹۷۹؁ء تک متحدہ جمہوری محاذ (یو،ڈی،ایف)اور پاکستان قومی اتحاد میں جنرل سیکٹری کے فرائض انجام دیتے رہے۔۱۹۷۳؁ء میں اسلامی آئین سازی میں آپ کا نمایاں کردار رہا اور مختلف حلقوں میں آپ کی جدوجہد کو سراہا گیا۔پروفیسر غفور احمد صاحب نے تحفظ ختم نبوت اور نظام مصطفیﷺ کے تحریکوں میں بھر پور کردار ادا کیا۔پروفیسر خوشید احمد ،پروفیسر غفور صاحب کے بارے میںایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’سیاسی قوتوں کو منظم کرنے اور متعین مقاصد کے لیے اتحاد قائم کرنے اور ان کی بنیاد پر تحریک چلانے کے باب میں پروفیسر غفور احمد صاحب کا کردار منفرد تھا۔دستور ساز اسمبلی اور پھر سیاسی تحریکات میں ان کے کردارکو دیکھ کرجناب الطاف گوہر اور جناب خالد اسحاق جیسے افراد نے میرے اور میرے علاوہ دسیوں افراد کے سامنے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ اگر ملک کی سیاسی قیادت میں پروفیسر غفور احمد صاحب جیسے لوگ موجود ہوںتو یہ ملک دن دوگنی ورات چوگنی ترقی کرسکتا ہے۔بلکہ الطاف گوہر صاحب نے تو ڈان کے اپنے ایک مضمون میں ان کو پاکستان کے لیے مطلوب وزیر اعظم تک کی حیثیت سے پیش کیا تھا‘‘۔سو اس اقتباس سے پروفیسر غفور صاحب کی پالیمانی و سیاسی زندگی پر بڑی حد تک روشنی پڑتی ہے۔
وقتِ رخصت: طویل خرابیء صحت سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب جہانِ فانی سے جہانِ باقی کی طرف سفر کرنے کے لیے رختِ سفر باندھ رہے ہیں۔وہ ۳ ماہ سے مسلسل اپنی بیماریوں سے لڑ رہے تھے ۔کارکنانِ جماعت ِ اسلامی ،ان کے تمام قدردان اپنے اپنے مشن، اسلامی انقلاب کے لیے کوشاں تھے ۔کہ ایک صدا آئی تحریک ِ اسلامی کی جان،مولانامودودی کے رفیق جناب پروفیسر غفوراحمد صاحب جہاں فانی چھوڑ گئے۔پروفیسر غفور احمد صاحب۲۶دسمبر ۲۰۱۲؁ء کو رخصت ہوئے۔ ان کی نمازِ جنازہ سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب نے ادا کی۔ان کی نمازِ جنازہ ایم،اے جناح روڈ کراچی پر ادا کی گئی۔ کہیں آنسو تو کہیں عزمِ نو ، کہیں سسکیاں تو کہیں دلاسے،کہیں دعائیں تو کہیںآمین کی بلند صدائیں ۔۔۔اسی کیفیت میں پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب کو رخصت کیا گیا۔پروفیسر غفور صاحب کے ۳ بیٹے اور ۶ بیٹیاں ہیں۔
ملکی سیاسی قائدین نے ان کی تعزیت کی،،ان کی وفات پر بڑے بڑے دعائیہ اور تعزیتی ریفرینسز کراوئے گئے۔بلا شبہ ہر ایک کو احساس ہے کہ ایک پاکیزہ سیاسی لیڈر کی رخصت ناقابلِ تلافی نقصان ہے ۔لیکن اس دنیا میں کسی کو بقا نہیں۔انا للہ واناالیہ راجعون (بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہم سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے)
’’اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن‘‘