پاکستانی معیشت اور آئی ایم ایف کے موضوع پر سیمینار

341

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری
پچھلے دنوں محمد علی جناح یونیورسٹی میں ’’پاکستانی معیشت اور آئی ایم ایف‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں زاہد سعید منیجنگ ڈائریکٹر انڈس فارما، فرینڈز آف برنس سینٹر کے صدر، رکن ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈ اور اس کے علاوہ رکن گورننگ باڈی سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن، محترمہ پروفیسر ڈاکٹر نورین مجاہد شعبہ معاشیات جامعہ کراچی اور سردار شوکت پوپلزئی صدر بلوچستان اکنامک فورم نے شرکت کی۔ راقم نے سیمینار کے اغراض و مقاصد پیش کیے جب کہ میزبانی کے فرائض ٹی وی چینل اب تک کے اینکر علی ناصر نے انجام دیے۔
سیمینار کا مقصد یونیورسٹی میں اکنامکس، فنانس اور اسلامک بینکنگ کے طلبہ اور اساتذہ کو ملک کے موجودہ معاشی، کاروباری، اقتصادی اور مالیاتی حالات سے روشناس کرانا ہوتا ہے تا کہ کتابی علم کے ساتھ ساتھ انہیں بزنس اور انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے ساتھ مکالمہ کرایا جاسکے اور ان کی سوچ، فکر اور نظر میں وسعت اور گہرائی پیدا ہو اور جب وہ عملی دنیا میں قدم رکھیں تو اس دنیا کے چیلنجوں اور مسائل سے بخوبی نبرد آزما ہوسکیں۔
پاکستان میں گرتی ہوئی معاشی نمو کی شرح، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری اور سرمایہ کاری میں کمی کا ذکر کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا نتیجہ ہے اور اس وقت اصل میں معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی تشکیل عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے اور اس معاملے میں پاکستان کی آزادی اور خود مختاری ختم ہوچکی ہے اور جب سے معیشت کی گاڑی کا اسٹیرنگ آئی ایم ایف نے سنبھالا ہے تمام عالمی مالیاتی اداروں کی پاکستان آمد شروع ہو چکی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کو قرضہ دے رہا ہے، ورلڈ بینک نے بھی قرضے دینے کے ارادے ظاہر کردیے ہیں اور اس طرح پاکستان پر اتنا قرضہ ہوجائے گا کہ غریب عوام پر خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔
پاکستانی برآمدات کی گرتی ہوئی صورتِ حال مقررین کا اہم موضوع تھا جس پر اظہار خیال کرتے ہوئے سامعین کو یہ بتایا گیا کہ عرصہ پچیس تیس سال سے ہماری تمام برآمدی پالیسیوں اور عنایات کا مرکز پانچ برآمدی شعبے ہیں یعنی ٹیکسٹائل، قالین، لیدر، کھیلوں کا سامان اور آلات جراحی۔ تمام رعایتیوں اور عنایات کے باوجود گزشتہ پانچ سال میں چمڑے کی مصنوعات اور قارلین کی برآمدات میں کمی آئی ہے جب کہ کھیلوں کا سامان اور ٹیکسٹائل میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف سبزیوں، پھلوں، مچھلی اور ادویات کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح دنیا میں حلال مصنوعات کی برآمدات اور طلب میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان میں گوشت، ادویات اور پھلوں کی برآمدات میں اضافے کی بہت گنجائش ہے، وہ رعایتیں جو کھیلوں کا سامان اور آلات جراحی کو دی جاتی ہیں اگر ان شعبوں کو دی جائیں تو ان کی برآمد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے وہ سرکاری ادارے جن کا کام دنیا بھر میں پاکستانی برآمدات اور مصنوعات کو متعارف کرانا ہے، نئی برآمدی مارکیٹیں تلاش کرنا ہے اور بین الاقوامی خریداروں کو مطمئن کرنا ہے وہ سرے سے اس کام سے واقف ہی نہیں اور نہ اُن میں اس کام میں سچی لگن پائی جاتی ہے۔ دُنیا کے مختلف ممالک میں برآمدی دوروں کے نام پر سیر سپاٹا کرنے اور شاپنگ کے مزے لینے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں پاکستانی برآمدات 25 ارب ڈالر سے 22 ارب ڈالر ہوگئیں، اس سال 23 ارب ڈالر کی اُمید کی جارہی ہے۔ جب کہ ویت نام جس نے ترقی کا سفر پاکستان کے بعد شروع کیا 250 ارب ڈالر کی برآمدات تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح بنگلادیش ہم سے علٰیحدہ ہونے کے بعد اس وقت تقریباً 40 ارب ڈالر کی برآمدات دُنیا میں بھیج رہا ہے۔ یہ صورت حال اس کے باوجود ہے کہ یہاں برآمدات بڑھانے کے لیے، ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان، نیشنل ٹیرف کمیشن، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ، تجارتی تنازعات سلجھانے کی تنظیم (TDRO) ایکسپورٹ ڈریسنٹ فنڈ جیسے ادارے موجود ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو سفارشی اور غیر فعال لوگوں کو برآمدات کے شعبے سے ہٹا کر میرٹ پر پروفیشنل لوگوں کو رکھنا ہوگا اور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے تا کہ برآمدات میں اضافہ ہو اس سے معیشت کی ترقی کی شرح (GDP) میں اضافہ ہوگا اور بے روزگاری میں کمی آئے گی۔