بھارتی مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کا قانون

814

بھارت میں مودی اپنے جنون میں ہر حد سے گزر گیا ہے ۔گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی بنیاد پر وزیراعظم بننے والے مودی اور اس کے ساتھیوں نے پہلے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا جس کے بعد سے کشمیر میں ہونے والے احتجاج کو دبانے کے لیے مسلسل لاک ڈاؤن جاری ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کا پوری دنیا سے مواصلاتی رابطہ منقطع ہے ۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ مقبوضہ کشمیر میں شہادتیں نہ ہوتی ہوں ، کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے نہ پڑتے ہوں اور نوجوان و کم سن کشمیری بچوں کو حراستی مراکز میں لے جاکر بہیمانہ تشدد کا نشانہ نہ بنایا جاتا ہو ۔ کشمیری خواتین کی عصمت دری کو سرکاری سطح پر بطور تشدد استعمال کیا جارہا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کا المیہ عالمی بے حسی کی نذر تو تھا ہی ، اب بھارتی پارلیمنٹ نے ترمیمی شہریتی بل منظور کرلیا ہے جس کے تحت شمال مشرقی ریاستوں میں بسنے والے مسلمانوں کو ان کی بھارتی شہریت سے محروم کیا جاسکے گا جبکہ بیرون ملک سے آنے والے ہندوؤں اور بدھ مت کے پیروؤں کو بھارتی شہریت دی جاسکے گی ۔ بھارتی صدر کے دستخط کے بعد جمعہ کو یہ بل قانون کا درجہ اختیار کرگیا ہے ۔ اس بل کے خلاف بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں زبردست ہنگامے پھوٹ پڑے ۔ اتر پردیش اور بہار سمیت دیگر ریاستوں اور صوبوں میں بھی شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں ۔ اس کے باوجود مودی اور اس کی انتہا پسند بھارتیہ جنتا پارٹی انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اس پر ڈٹی ہوئی ہے ۔محض مذہب کی بنیاد پر شہریت سے محروم کرنے کی ابتدا اسرائیل نے کی تھی ۔ اس کے بعد کچھ ایسا ہی میانمار کی حکومت نے کیا اور سرکاری فوج نے نہ صرف روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا بلکہ بڑے پیمانے پر انہیں حراستی مراکز میں قید کرکے ان کی زمینوں اور دیگر املاک پر قبضہ کرلیا گیا ۔ سرکاری نسل کشی کے بعد روہنگیا بڑی تعداد میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور اب وہ بنگلا دیش میں شدید کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال چین کے جنوبی صوبے سنکیانگ میں ہے جہاں پر صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف اقدامات جاری ہیں اور انہیں اجتماعی حراستی مراکز میں قید کرکے مذہب تبدیل کرنے پر جبری طور پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ دنیا کی جانب سے ایسے مظالم پر کوئی عملی قدم نہ اٹھانے اور مناسب ردعمل نہ ہونے پر اب بھارت بھی اسی راہ پر چل پڑا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو تو ان کے مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہی جارہا تھا مگر اب یہ سلسلہ پورے بھارت میں پھیلادیا گیا ہے ۔ کھلے عام یہ کہا جارہا ہے کہ اسپین کی طرح بھارت سے بھی مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیا جائے گا ۔ یا تو وہ مذہب تبدیل کرکے ہندو ہوجائیں یا پھر انہیں ملک بدر کردیا جائے گا ۔ بھارت میں کروڑوں افراد اس وقت شہریت سے محروم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں ، مقبوضہ کشمیر کا اتنا بڑا خطہ جیل میں تبدیل کیا جاچکا ہے جہاں پر کشمیری اپنے بنیادی شہری حقوق سے محروم ہیں مگر پوری دنیا میں اس پر موت کی سی خاموشی طاری ہے ۔ کہیں سے بھی کوئی عملی ردعمل سامنے نہیں آیا۔اب شہریت میں ترمیم کا قانون بنادیاگیا ہے ۔ اس پر اگر کہیں سے کوئی نحیف سے آواز بلند ہوئی ہے تو کچھ اس طرح کہ بھارت کے اس عمل کا بغور جائزہ لے رہے ہیں ۔ اس معاملے پر اصولی طور پر پاکستان کو سب سے زیادہ متحرک ہونا چاہیے تھا ۔ مگر پاکستان ہی کا رویہ سب سے زیادہ مایوس کن ہے ۔ پاکستان نے تو بھارت کی جانب سے پاکستان کا پانی بند کرنے اور پاکستان کی شہ رگ کو بھارتی قبضے میں جانے پر کوئی موثر صدائے احتجاج بلند نہیں کی تو پھر شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں میں بسنے والے مسلمان کس شمار قطار میں ہیں ۔ پاکستان کا تو یہ حال ہے کہ ترجمان دفتر خارجہ نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ ہے مگر بھارت کو پیاز بھی برآمد کی جارہی ہے اور تقریبا مفت قیمتی پہاڑی نمک کی فراہمی بھی جاری ہے ۔ بھارتی روز کنٹرول لائن پر فائرنگ کرکے بے گناہ پاکستانی شہریوں کو شہید کردیتے ہیں ۔ اب تک پاک فوج کے کئی جوان اور افسران بھی جام شہادت نوش کرچکے ہیں مگرپاکستانی حکمراں بھارت کے ساتھ عملی طور پر جام ٹکرائے جارہے ہیں ۔ اس پر بنگلا دیش کا ردعمل بھی کچھ پاکستان سے ملتا جلتا ہی ہے ۔ یعنی بنگلا دیش نے اتنے بڑے بھارتی اقدام پر صرف یہ کیا کہ اپنے وزرائے داخلہ و خارجہ کے بھارتی دورے منسوخ کردیے ۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو پوری دنیا میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو متحرک کرے اور اس کے سدباب کے لیے عملی اقدامات کرے ۔ عمران خان نیازی کی پالیسیاں تو واضح ہیں کہ عملی طورپر وہ مودی کے پارٹنر کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ اب اس پر دیگر قوتوں کو متحرک ہونا ضروری ہے ۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی بہترین کردار ادا کرسکتی ہے ۔ وہ پوری دنیا میں برادراسلامی تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک ایسی این جی او تشکیل دے سکتی ہے جو پریشر گروپ کا کردار ادا کرے اور اپنے ملک کے علاوہ مغربی ممالک میں عوام کو اس سلسلے میں بیدار کرے، اقوام متحدہ اور مغربی ممالک پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ بھارت ، میانمار اور چین کو مذہب کی بنیاد پر کیے جانے والے مظالم کو روکنے پر مجبور کریں ۔