کراچی واٹر بورڈ کی نجکاری کی تیاری

266

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے متنبہ کیا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی نجکاری قبول نہیں کی جائے گی اور اس کی ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی ۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر سارے سرکاری ادارے نجی شعبے کے حوالے کیے جارہے ہیں ۔ پہلے کے الیکٹرک کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر نجی شعبے کے حوالے کیا گیا جس کے خوفناک نتائج سب کے سامنے ہیں ۔ کے الیکٹرک کے مالکان کئی مرتبہ تبدیل کیے جاچکے ہیں مگر حقیقی صورتحال یہ ہے کہ یہ ادارہ ہر ماہ اربوں روپے کی زاید بلنگ کرتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ کے الیکٹرک کو نجی شعبے کے حوالے کیے جانے کے وقت کہا گیا تھا کہ نئی انتظامیہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے نئے یونٹ لگائے گی اور بجلی کی تقسیم کا نظام بہتر کرے گی ۔ عملی طور پر یہ ہوا کہ نجی انتظامیہ نئے پیداواری یونٹ کا تو کیا اضافہ کرتی ، یہ پہلے سے موجود پیداواری یونٹ ہی گنجائش سے کم چلارہی ہے اور یوں کراچی کے شہری بجلی کے مصنوعی بحران سے دوچار ہیں ۔ بجلی کی تقسیم کا نظام تو کیا درست کیا جاتا پہلے سے نصب تانبے کے تار اتار لیے گئے اور ان کی جگہ ناقص المونیم کے تار لگادیے گئے جس کے باعث ذرا سی بھی تیز گرمی یا سردی پڑنے پر فیڈر ٹرپ کرجاتے ہیںاور پورے کا پورا شہر ہی بجلی سے محروم ہوجاتا ہے ۔ بجلی کے کھمبوں پر ارتھ کے تار نہیں لگائے گئے جس کے باعث بارش کے دوران کھمبوں میں کرنٹ آنے سے اب تک درجنوں اموات ہوچکی ہیں ۔ صرف گزشتہ بارش میں ہی پچاس سے زاید معصوم شہری محض کے الیکٹرک کی غفلت کی وجہ سے اپنی جان سے گئے ۔ اب پاکستان اسٹیل ملز اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو کے الیکٹرک کے ماڈل پر عمل کرتے ہوئے نجی شعبے کے حوالے کرنے پر کام جاری ہے ۔ کے الیکٹرک کو دیکھ کر سمجھا جاسکتا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو نجی شعبے کے حوالے کیا گیا تو کراچی کے شہریوں پر ٹوٹ پڑنے والی نئی قیامت کیا ہوگی ۔ جو پانی مل رہا ہے وہ بھی نہیں ملے گا مگر بلوں میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا ۔ اس پر کوئی تبصرہ بھی نہیں ہے کہ اس وقت کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی صورتحال انتہائی خراب ہے مگر اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ اتنا اہم ادارہ گِدھوں کے حوالے کردیا جائے ۔ اگر اس ادارے کی کارکردگی بہتر نہیں ہے تو اس میں سار ا قصور سندھ حکومت کا ہے جس نے اس میں سفارشی اور نااہل انتظامیہ کو تعینات کیا ہوا ہے جس کا کام صرف اور صرف ٹینکر مافیا کے ذریعے مال کمانا ہے یا پروجیکٹوں میں سے بھاری بھرکم کمیشن وصول کرنا ہے ۔ اگر نااہلی کی بنیاد پر ہی کوئی کارروائی مقصود ہے تو سب سے پہلے سندھ کی حکومت کے خلاف کارروائی کی جائے جو اتنا سا کام بھی نہیں کرسکتی کہ کسی ادارے میں اہل اور ایماندار انتظامیہ کا میرٹ کی بنیاد پر تقرر ہی کرسکے ۔