مرضی کے مظلوم اور مرضی کے ظالم

439

چین اور امریکا کے درمیان رقابت اور مخاصمت کا جام اب چھلکنے کو بے تاب ہے۔ امریکا نے سرد جنگ کا ایک پورا دور سوویت یونین کو نظریاتی اور عملی طور پر پچھاڑنے میں صرف کیا اور وہ مسلمانوں کی مدد سے یہ معرکہ سر کرنے میں کامیاب بھی ٹھیرا۔ سرد جنگ کا آخری گرم معرکہ افغانستان کی سرزمین پر لڑا گیا اور مسلمان اس جنگ کا ایندھن بن گئے۔ المیہ یہ ہوا کہ سردجنگ ختم ہوئی تو اس کا سارا بوجھ بھی مسلمانوں پر ہی ڈال دیا گیا اور انہیں مغرب کے لیے ایک نئے خطرے کے طور پر پیش کیا گیا۔ مسلمانوں کے بطور خطرہ سامنے آنے کی بات کو مبالغہ آرائی کی حد تک افسانوی اور پر کشش بنا کر پیش کیا اور یوں اس کے نتیجے میں سخت گیر مسلمان مخالف ذہنیت وجود میں آگئی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مشرق وسطیٰ سے افریقا تک مسلمانوں پر جو بیتی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ سردجنگ کے بعد کے حالات مسلمان دنیا کے لیے خاطر غزنوی کے اس شعر کی تصویر بن گئے
کیا قیامت ہے کہ خاطر کُشتۂ شب بھی تھے ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے
امریکا اس عرصے میں مسلمان خطرے کے سائے کا پیچھا کرتا رہا اور اسے یہ خبر ہی نہ ہوسکی کہ ماوزے تنگ کا چین اقتصادی اور فوجی دیو بن کر اس کے راستے میں کھڑا ہوچکا ہے۔ وہ دنیا بھر میں امریکا کا تجارتی اور ایشیا میں عسکری رقیب بن چکا ہے۔ اب امریکا اس ہاتھوں سے دی گئی اس گرہ کو دانتوں سے کھولنے کی سی صورت حال سے دوچار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا اس بار بھی مسلمانوں کے کندھے پر رکھ کربندوق چلانا چاہتا ہے اور اس کے لیے سنکیانگ کے اویغورکے مسائل اور معاملات امریکا کے ہاتھ میں ایک ٹرمپ کارڈ کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔
اویغور مسلمانوں کے حالات کو بنیاد بنا کر امریکا چین کے خلاف بین الاقوامی طور پر ایک فضاء بنا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے وہ تمام سبق جو مشرق وسطیٰ سے کشمیر تک بھلائے جا چکے ہیں سنکیانگ میں پوری قوت سے رٹے جا رہے ہیں۔ ریاستی جبر، ریاستی دہشت گردی کی جو اصطلاحات فلسطین اور کشمیر کے تناظر میں متروک ہو چکی تھیں سنکیانگ میں اپنی بہار دکھا رہی ہیں اور امریکا اور مغربی میڈیا ان اصطلاحات کا روانی سے استعمال کر رہا ہے۔ تازہ دھماکا امریکی ایوان نمائندگان میں اویغور ہومن رائٹس پالیسی ایکٹ 2019 کے نام سے چین کے خلاف پابندیوں کے ایک بل کی متفقہ منظوری ہے۔ یہ بل اگلے مرحلے میں ایوان بالا میں جائے گا اور وہاں سے منظوری کی صورت میں صدر کے پاس دستخطوں کے لیے پہنچے گا۔ صدر اس بل پر دستخط کرے گا تو امریکا کی طرف سے چین پر مختلف پابندیوں کا آغاز ہو جائے گا۔ اس سے پہلے امریکا نے ایک اور بل ہانگ کانگ میں چین مخالف جمہوریت پسندوں کی حمایت میں بھی منظور کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے بل پر دستخط کرکے اسے قانون کی شکل دی تھی۔ اس بل کو ہیومن رائٹس ینڈ ڈیموکریسی ایکٹ کا نام دیا گیا تھا۔ اس بل کی منظوری کے بعد چین نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی بحری بیڑوں اور جہازوں کی ہانگ کانگ آمد پر پابندی عائد کردی تھی۔ سنکیانگ کے معاملے میں بھی امریکا کا کہنا ہے کہ چین اویغور مسلمانوں کو جبر وتشدد کا نشانہ بنارہا ہے اور ان کی برین واشنگ کے لیے جیلیں قائم کی گئی ہیں۔ ان مراکز میں لوگوں کو جبری طور پر بند رکھا جاتا ہے۔ چین ان مراکز کو تربیتی کیمپ قرار دے رہا ہے۔ اویغوروں کے بارے میں منظور کیے گئے بل میں صدر ٹرمپ پر زورد یا گیا ہے کہ وہ اویغوروں سے ہونے والی بدسلوکی کی مذمت کریں اور چین سے مطالبہ کریں کہ وہ ایسے کیمپ بند کرے اور حقوق انسانی کا احترام یقینی بنائے۔
چین نے اویغور مسلمانوں کے حوالے سے امریکی ایوان نمائندگان میں بل کی منظوری کی مخالفت کی ہے اور امریکا کو اس بل کو روکنے کا کہا ہے۔ اس بل میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک راہنما کو جو حراستی مراکز کے معاملات کے اصل حکمت کار مانے جاتے ہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ چین نے امریکا پر اس بل کو قانون بننے سے روکنے پر زور دیا ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ میں تیزی آنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ امریکا کی طرف سے ہانگ کانگ کے جمہوریت پسندوں کے بعد اویغور مسلمانوں کی حمایت بل کی منظوری کی کوششیں بظاہر انسان دوستی اور جمہوریت پسندی کا شاہکار ہیں مگر فلسطین اور کشمیر میں تو ذہن سازی اور جبری مشقت سے بھی زیادہ سنگین صورت حال درپیش ہے وہ ہے نسل کشی۔ لوگوں کو در بدر کرنے کی طویل المیعاد حکمت عملی۔ ایک بڑے انسانی المیے کے رونما ہونے کے منڈلاتے ہوئے سائے۔ کشمیر میں اسی لاکھ آبادی ایک حراستی کیمپ کی مکین بن چکی ہے اور مہینوں اسی کیفیت میں گزر گئے مگر ابھی تک امریکا کی انسان دوستی، مسلمان پسندی، رحم دلی اور خدا ترسی کا ایک چشمہ بھی نہیں پھوٹ سکا۔ ایک ماہ
میں چین کے خلاف دوبل اور چار ماہ میں بھارت کے لیے تعریف اور توصیف کے ڈونگرے اور پاکستان کے لیے صرف تشویش اور تسلی کے دوبول۔ کئی ماہ سے سوائے ’’گا گی گے‘‘ اسی لاکھ انسانوں کو بڑی جیل کا مکین اور قیدی رکھنے پر کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ جہاد کی جس اصطلاح پر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا کے کان کھڑے ہوتے اور بھنویں تن جایا کرتی تھیں اس اصطلاح کو سنکیانگ میں عملی شکل میں دیکھنا مغربی منصوبہ سازوں کے دلوں میں تڑپتی مچلتی خواہش بن گئی ہے۔ برسوں پہلے افغانستان میں لڑنے والے ایک کمانڈر فضل الرحمان خلیل نے مدتوں پہلے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ امریکا ہم سے اس لیے ناراض ہے کہ ہم نے سنکیانگ میں جہاد کی پیشکش شکریہ کے ساتھ مسترد کی تھی۔ بات تو مفادات کی ہوئی کہ چین کا بازو مروڑنا مقصود ہوا تو مسلمانوں سے ہمدردی کے سوتے پھوٹ پڑے اور بھارت کو سکون پہنچانا مطلوب ہو تو یہ سوتے خشک ہوکر ماحول کو بنجر بنادیتے ہیں۔ یہ اصول اور انسانی اقدار اور اخلاقیات کا معاملہ تو نہ ہوا کہ بلکہ اچھے اور برے مسلمان کی تفریق ہوئی مرضی کے ظالم اور مرضی کے مظلوم کا تضادات سے بھرپور اصول ہوا۔ مرضی کے معیار اور یہ تفریق بھی سیاسی اور معاشی مفادات سے جنم لیتی ہے۔ امریکا کی اصول پسندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ گزشتہ چار ماہ میں ایک قرارداد ایوان بالا اور وائٹ ہائوس سے ہوتی ہوئی قانون کا درجہ حاصل کرتی جس میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر چین چوانگو کی طرح نام لے کر امیت شاہ کی مذمت کی جاتی کہ جس نے ہندوتوا کے نظریہ کے زیر اثر اسی لاکھ انسانوں کو تہاڑ جیل کا قیدی بنا دیا ہے اور یہ قیدی سراپا سوال ہیں کہ عالم پناہ کچھ تو اِدھر بھی۔