امریکی جارحیت اور افغان رہنما

365

امریکی افواج پاکستان کے ہوائی اڈوں سے ایک ماہ سے زائد عرصہ افغانستان کے طول و عرض پر آگ اور بارود برساتی رہیں۔ ہزاروں افغان پیوند خاک کرد یے گئے۔ 2اکتوبر 2001ء امریکی سی آئی اے نے طے شدہ پلان کے تحت سی 130کارگو طیارے کے ذریعے شمالی اتحاد کو ہتھیاروں کی پہلی کھیپ پہنچائی،پھر یہ سلسلہ چلتا رہا ۔حملے سے پہلے اور بعد میںبلوچستان اور خیبر پشتونخوا سے بھی کمانڈروں کی معیت میں جنگجو افغانستان میں داخل کرد یے گئے ۔ان سب نے طالبان کے خلاف وحشت و سفاکی کی نئی تاریخ رقم کردی۔ بڑے معززین، علماء و دانشور ، ادیب و شعراء سامراجی چھتری کے نیچے آ گئے ۔ امریکی دولت ان میں بھی تقسیم ہوتی رہی۔ حتیٰ کہ تہران کی مالی مدد بھی آتی رہی۔پاکستان کے پشتون قوم پرست سیاسی حلقے استعمار و استکبار کے مددگار بن گئے۔ صبغت اللہ مجددی(جبہ نجات ملی ) ، سید احمد گیلانی(محاذ ملی) اس میں شامل تھے۔ برہان الدین ربانی اور ان کی پارٹی جمعیت اسلامی اسی طرح عقیدہ توحید کے مبلغ پروفیسر عبدالرب رسول سیاف اور ان کی جماعت اتحاد اسلامی نے امریکی و ناٹو افواج کو خوش آمدید کہا۔البتہ افغانستان کی حزب اسلامی اور حرکت انقلاب اسلامی نے امریکی مداخلت اور حملے کی حمایت نہ کی۔ یاد رہے کہ حملے سے قبل واشنگٹن نے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کو بھی تعاون کا پیغام بھیجا تھا۔ انہیں افغانستان کی صدارت کی پیشکش بھی کی ۔ گلبدین حکمت یار نے تعاون اور پیشکش سے انکار کیا ،بلکہ امریکا پر واضح کیا کہ افغانستان پر حملے کی صورت میں حزب اسلامی وطن کے دفاع میں غیر ملکی افواج کے خلاف مسلح مزاحمت کرے گی۔
گلبدین حکمت یار ساٹھ کی دہائی ہی سے افغانستان کی سیاست میں متحرک چلے آرہے ہیں۔1972ء میں یعنی ظاہر شاہ کے دور میں قید کر لیے گئے تھے۔ سردار دائود کے اقتدار پر قبضے کے بعد انہیں رہائی ملی۔ دائود کی حکومت میں بھی خاندانی نظام حکمرانی ،اشتراکی افکار اور ملک میں روسی اثرات و مداخلت کے خلاف سرگرم رہے ۔ خاندان نشانۂ ستم بنا ،عرصۂ حیات تنگ ہوا تو 1976ء میں پاکستان ہجرت کر گئے۔ روسی قبضے کے خلاف حزب اسلامی کی سیاسی و عسکری تحریک مسلمہ تھی۔ چنانچہ افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف حزب اسلامی نے مسلح مزاحمت شروع کر دی۔ 2016 ء تک انتہائی ناموافق حالات میں اور ناپید وسائل کے ساتھ قابض افواج کے خلاف مزاحمت و مدافعت کی ۔ گلبدین حکمت یاراور ان کی جماعت پر عالمی سطح پر پابندیاں عاید تھیں۔ بلیک لسٹ قرار دیے گئے تھے۔ اس طرح کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کیے اور بالآخر تیس ستمبر 2016کو کابل حکومت کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کر دیے اور پھر چار مئی 2017کو گلبدین حکمت یار تقریباً 23سال بعد اپنے حامیوں کے ساتھ کابل واپس لوٹے۔حزب اسلامی اب سیاسی طور پر پوری طرح سرگرم ہے، امن کی داعی ہے ۔امریکی و ناٹو افواج کے انخلا کا مطالبہ کرتی ہے۔ بلکہ جنگ کی اصل وجہ غیر ملکی افواج کو قرار دیتی ہے ۔ حرکت انقلاب اسلامی نے بھی امریکی حملے پر کڑی تنقید کی۔ 4اکتوبرکو حامد کرزئی موٹرسائیکلوں پر کوئٹہ سے قندھار منتقل ہوئے۔ گل آغا شیر زئی اپنے350لوگوں کے ساتھ23گاڑیوں میں پاکستان کی فورسز کی حفاظت و نگرانی میں افغانستان میں داخل ہوئے۔ 23اکتوبر 2001ء کوکمانڈر عبدالحق پشاور سے افغانستان میں داخل ہوئے۔ کمانڈر عبدالحق بہت جلد طالبان کے ہتھے چڑھ گئے اور قتل کرد یے گئے۔ حامد کرزئی البتہ بال بال بچ گئے۔ سرحدوں پر بھی بھرتی کیمپ قائم کر دیے گئے ۔ حملے کے بعدمنتشر طالبان پر ہر جانب سے قیامت بپا کی گئی ۔ اسلام آباد میں متعین افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو سفارتی استثنا کے باوجود شرمناک اور ذلت آمیز طریقے سے امریکی فورسز کے حوالے کیاگیا ۔ گویا بگرا م اور گوانتا موبے کے بدنام زمانہ عقوبت خانے آباد ہونا شروع ہوگئے۔نومبر 2001 ء کو جرمنی کے شہر بون میں سامراجی پالیسیوں کی توسیع و توثیق کی خاطر افغان کانفرنس منعقد کی گئی۔ جہاں اس سیاہ عمل کو روا و جائز کاجامہ پہنایا گیا۔کابل حکومت کی صورت گری خواہش اور مقصد کے تحت کی گئی ، حامد کرزئی یکے بعد د یگرے صدرچنے گئے۔ افغانستان ہنوز ان سامراجی پالیسیوں کے جکڑ میں ہے ۔امریکی سی آئی اے اور فوجی حکام نے دنیا کو دکھانے کی کوشش کی کہ در حقیقت یہ جنگ افغانوں کے درمیان ہے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس حکمت عملی کے تحت انہیں افغانستان میں کامیابی حاصل ہوگی ۔ مگر ا ن کا یہ فریب کامیاب نہ ہوا۔ آخر کار واشنگٹن طالبان سے براہ راست مذاکرات پر مجبور ہوا ۔اس مقصد کے لیے 18 جون 2013 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کو سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت مل گئی۔ یوں جلی و خفی گفت و شنید کا سلسلہ چل پڑا ۔25 فروری2019 کو امریکی حکام اور طالبان کے درمیان پہلے با قاعدہ مذاکرات کا آغاز ہو ا۔ طالبان اور امریکا کے مابین پندرہ ماہ تک بات چیت ہوتی رہی ۔ 8 ستمبر 2019 ء امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے ان مذاکرات کو ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ جس سے ثابت ہوا کہ دراصل یہ جنگ امریکااور افغانوں کے مابین ہے۔
امریکی سی آئی اے حکام کہتے ہیں کہ طالبان اسامہ بن لادن کو ساتھیوں سمیت حوالے کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اور ملا محمد عمر نے امریکی نمائندے سے بالمشافہ ملاقات کی ہامی بھی بھر لی تھی۔ پاکستان میں امریکی سی آئی اے کے سابق اسٹیشن چیف رابرٹ ایل گر ینئیر کی کتاب 88 Days to Kandhar سے بہت کچھ اخذ کیا جا سکتا ہے ۔اس جاسوس نے یہ بھی لکھا ہے کہ طالبان تحریک سے پاکستان یا اس کی آئی ایس آئی کا کوئی تعلق نہ تھا۔اُسامہ کی موجودگی کو جواز بنا کر افغانستان تاراج کیا گیا ۔اُسامہ کی مبینہ ہلاکت 2 مئی 2011 ء کو پاکستان کے علاقے ایبٹ آبا میں ہوئی ۔عمران خان نے 22 جولائی 2019 کو امریکا کے ’’فاکس نیوز ‘‘کو انٹرویو میں بتایا کہ ’’ آئی ایس آئی نے ہی ابتدا میں اسامہ کی موجودگی کا ٹیلی فونک لنک امریکا کو فراہم کیا تھا۔ہم امریکا کو اپنا اتحادی سمجھتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ ہم خود اسامہ بن لادن کو پکڑتے ،لیکن امریکا نے ہماری سرزمین میں گھس کر ایک آدمی کو ہلاک کر دیا‘‘۔اسی طرح پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’پاکستان نے ایبٹ آباد میں القاعدہ کے بانی اْسامہ بن لادن کی موجودگی سے متعلق امریکا کو آگاہ کیا لیکن واشنگٹن نے مشترکہ آپریشن کرنے کے بجائے خود اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کر کے ہمیں دھوکا دیا۔ اسامہ بن لادن کا پتا لگانے کے حوالے سے پہلی کال پاکستان نے ٹریس کی تھی‘‘۔( چار ستمبر 2019 کواسلام آباد میںمقبوضہ کشمیر سے متعلق پریس کانفرنس کے اختتام پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو )۔یعنی یہاں بھی امریکا نے دغا و چالبازی سے کام لیا ۔غرض امریکا آج طالبان سے مذاکرات اور بات چیت پر آمادہ ہے ۔ تب گفت و شنید کرتا تو نہ افغانوں کا نقصان ہوتا اور نہ ہی امریکا کو جانی نقصانات اوربھاری جنگی اخراجات برداشت کرنے پڑتے۔ بہرحال افغان طالبان کی تحریک ا ورمزاحمت دنیا کی ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔