جنرل باجوہ کو معذرت کرلینی چاہیے

484

28نومبر 2019ء کو عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلہ دیا جس میں جنرل جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کی منظوری دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس دوران پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرے جب تک جنرل باجوہ بدستور ’’آرمی چیف‘‘ کے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آجانے کے بعد اب معاملہ وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان ہے، وفاقی حکومت 6 ماہ کے اندر اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کرانے میں کامیاب ہوجائے گی یا نہیں، اِس پر صورتِ حال واضح نہیں تاہم حکومت پُرامید ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ذریعے ’’آرمی چیف‘‘ کے حوالے سے قانونی سقم دور کرنے کے لیے معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرلے گی۔ حکومت کے بعض وزرا کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے آئین میں نہیں قانون میں ترمیم کرنا ہوگی جو باآسانی ہوجائے گی، حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بھی اِس معاملے کو طے کرسکتی ہے، تاہم اگر آئین میں ترمیم کرنا پڑ گئی تو اُس کے لیے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی جس کے لیے اپوزیشن کے پاس جانا پڑے گا، حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ رابطوں کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ تاہم اس معاملے پر اپوزیشن کی طرف سے بھی بیان بازی شروع ہوچکی ہے، کوئی صاحب کہتے ہیں کہ آرمی چیف کے حوالے سے حکومت خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ کوئی صاحب کہتے ہیں کہ وزیراعظم تبدیل ہونے کے بعد آرمی چیف کے معاملے پر قانون سازی کرنا ہوگی اور کوئی صاحب کہہ رہے ہیں کہ اب آرمی چیف کے مسئلے پر قومی اسمبلی میں تماشا لگانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ پہلے حکومت نے مس ہینڈل کیا اور اب تمام سیاستدان مل کر اِس کا مزید تماشا بنانا چاہتے ہیں، لہٰذا سیاستدان جو ہر دور کے ’’آرمی چیف‘‘ سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں یا پھر اُس سے ناراض رہتے ہیں اور اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے کسی نہ کسی جنرل کو شکست کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ اِن سیاستدانوں کو یہ ایک مستقل مرض لاحق ہوگیا ہے کہ یہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ’’جنرل‘‘ کی آشیرباد کے انتظار میں رہتے ہیں۔ ماضی میں جو ہوا سو ہوا، ہم اِس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ کب کس جنرل نے کس کا ہاتھ پکڑا اور کس کا چھوڑ دیا۔ تاہم آج کی بات یہ ہے کہ ’’آئی ایس پی آر‘‘ اِس بات کی بار بار وضاحت کرچکا ہے کہ پاک فوج ایک پیشہ وارانہ فوج ہے جس کے قطعاً کوئی سیاسی عزائم نہیں، فوج مکمل طور پر غیر جانبدار ہے، فوج آئین اور قانون کے مطابق حکومت کے احکامات کو ماننے کی پابند ہے‘‘۔ فوجی ترجمان کی اس طرح کی بار بار وضاحتوں کے باوجود ہمارے ’’سیاسی کلچر‘‘ میں فوج پر الزام تراشیوں کا رواج کم ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا جو ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد کے خلاف ہے جس کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ جرنیلوں سے متعلق پروپیگنڈے یا الزامات کو کس طرح سے روکا جائے فی الحال اس کی کوئی واضح صورت تو موجود نہیں البتہ الیکشن قوانین جس قدر موثر اور الیکشن کمیشن جس قدر بااختیار ہوں گے تو اُس کے بعد کافی حد تک سیاستدانوں کے پروپیگنڈے اور الزامات کا سدباب ہوسکے گا، تاہم قوم پرست، علیحدگی پسند اور غیر ملکی ایجنسیوں کے آلہ کاروں کی فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کو روکنے کے لیے موثر انتظامی فیصلے کرنے کے علاوہ سیاسی میدان میں سخت ردعمل دینا ہوگا کیوں کہ جن کو پاکستان سے دشمنی ہے وہ پاک فوج کے کبھی دوست نہیں ہوسکتے۔
ہم یہاں اُن محب وطن سیاستدانوں سے گزارش کرنا چاہیں گے جو جمہوری سسٹم کا حصہ ہیں اور جن کے دم سے جمہوریت چل رہی ہے اور جو کبھی نہ کبھی یا کہیں نہ کہیں حکومت کرنے یا اُس کا حصہ رہنے کی تاریخ رکھتے ہیں کہ وہ ’’آرمی چیف‘‘ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر غیر ذمے دارانہ گفتگو سے اجتناب کریں۔ گو کہ ’’آرمی چیف‘‘ سے متعلق جن سوالات اور قانونی کمزوریوں کو عدالت عظمیٰ میں زیر بحث لایا گیا ہے ان کا تعلق ضرور جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے ہے، تاہم ایسا بھی نہیں کہ یہ معاملہ محض ایک فرد یا ایک جنرل کا ہو بلکہ یہ معاملہ اُس عہدے اور منصب کا ہے جس سے قوم بے پناہ محبت کرتی ہے اور وہ پاکستان کے دفاع اور سلامتی کا ذمے دار ہے۔ معاملہ بہت حساس ہے لہٰذا کسی بھی طرح سے کسی بھی طرح کی غلطی کی گنجائش نہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’سیاسی مفادات کی کشمکش‘‘ سے ہٹ کر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے جو ’’قانونی بحث یا قانونی ابہام‘‘ پیدا ہوا ہے اس کو انتہائی دھیمے انداز میں محض ’’قانون سازی‘‘ تک محدود رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جنرل باجوہ بھی اپنا کردار ادا کریں۔ جنرل صاحب یقینا اس تمام صورتِ حال کے ممکنہ نتائج اور اثرات سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے کو جس طرح سے عدالت عظمیٰ اور بعدازاں پارلیمنٹ تک کھینچ لایا گیا ہے اس کو کون کس طرح سے ور کون کہاں تک لے جائے گا۔ دوست اور دشمن کس طرح سے لیں گے اور مزید یہ کہ قوم کیا سمجھے گی۔ ادارے کے احترام اور ذاتی وقار کے لیے کیا بہتر ہوگا؟ پاک فوج انتظامی صلاحیتوں اور جنگی مہارت میں کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ ڈسپلن اور باہمی احترام و اعتماد فوج کے ادارے کو دیگر تمام اداروں میں ممتاز کرتا ہے۔ کمانڈ میں کوئی خلا نہیں، ایک جنرل کے بعد دوسرا جنرل موجود ہے جو پہلے سے زیادہ پُرعزم ہے۔ پاکستانی فوج کوئی عام فوج نہیں جو محض جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہو بلکہ ایک اسلامی نظریے کی حامل فوج ہے جسے اسلامی نظریے کے دفاع اور فروغ کے لیے بھی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ پاک فوج کا عالمی امن اور علاقائی استحکام کے لیے بھی کردار بہت اہم ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عالمی جنگ میں بھی پاک فوج کی قربانیان دیگر ممالک کی افواج کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور ناقابل فراموش ہیں۔ پاک فوج کو مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال سمیت پڑوس میں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے، قوم افغان جنگ کو امریکا کی جنگ سمجھتی ہے جب کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کو پاکستان کی جنگ کہا جارہا ہے تاہم اس حوالے سے صورت حال مایوس کن ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے اب تک ’’فوجی پیش قدمی‘‘ نہ ہوسکی۔
بہرحال جنرل باجوہ صاحب نے اپنی مدتِ ملازمت کے تین برس بہت اچھے گزارے، دفاع وطن اور داخلی امن کے لیے جنرل صاحب کی کمانڈ میں بہت زبردست فیصلے کیے گئے۔ علاوہ ازیں ناقابل تسخیر دفاع کو یقینی بنائے رکھنے اور دشمن کی سازشوں اور شرارتوں کو کائونٹر کرنے اور منہ توڑ جواب دینے کے لیے بھی جنرل باجوہ صاحب نے جو حکمت عملی اختیار کی اور جس طرح کے اقدامات اُٹھائے وہ یادگار اور پاک فوج کی تاریخ کا سنہری باب ہیں۔ قوم مکمل پروٹوکول کے ساتھ جنرل باجوہ کو سلام پیش کرتی ہے تاہم آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے جس طرح کی بحث شروع ہوچکی ہے اس میں قوم یہ سمجھتی ہے کہ جنرل باجوہ صاحب کو ایک اور تاریخ ساز فیصلہ کرنا ہوگا، ایک ایسا فیصلہ کہ جو ہمیشہ کے لیے ایک روشن مثال بن جائے اور وہ فیصلہ جو موجودہ حالات میں سب سے بہتر فیصلہ ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کو ادارے کے احترام اور ذاتی وقار کی خاطر مدت ملازمت میں مزید توسیع لینے سے معذرت کرلینی چاہیے۔ جنرل صاحب کے انکار کے بعد سیاستدانوں کا کھیل دم توڑ جائے گا اور اس طرح سے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے دوران کوئی فرد زیر بحث آنے کے بجائے محض ’’آرمی چیف‘‘ کے عہدے اور منصب کے حوالے سے گفتگو ہوگی جس کے بعد شرارت کرنے والے میڈیا اور الزام تراشی کرنے والے سیاستدانوں کو مایوسی ہوگی۔
اللہ رب العزت ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے۔ آمین ثم آمین۔