الیکشن کمیشن کے معاملے پر ڈیڈ لاک برقرار،18ویں ترمیم میں چوتھی بار ترمیم کی ضرورت پیش آگئی

247

اسلام آباد ( میاں منیر احمد) آئین میں متفقہ طور پر 18ویں ترمیم منظور ہوئی تھی مگر اس میں خامیاں دور کرنے کے لیے 3بار مزید ترمیم کرنا پڑی اور آج پھر الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر کے معاملے پر ڈیڈ لاک نے مزید ترمیم کی ضرورت کھڑی کردی ہے۔ آئین میں بار بار ترمیم کا راستہ روکنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو جمہوری رویہ اپنانا چاہیے اورعمرانی معاہدہ کرلینا چاہیے۔ مسلم لیگ کا فیصلہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کے تقرر پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں ایک آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کی جائے۔ن لیگ کا وفد آئینی ترمیم کا مسودہ لے کر لندن گیا تھا۔ن لیگ کے صدر قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پارٹی کے قائد نواز شریف سے ’’ان ہاؤس‘‘ تبدیلی کے آپشن پر بات آگے بڑھانے کی اجازت حاصل کر لی ہے۔ نواز شریف اس کے حق میں نہیں تھے لیکن اب ان کے موقف میں لچک پیدا ہوگئی ہے۔ شہباز شریف نے ’’ان ہاؤس‘‘ تبدیلی کے آپشن پر اپوزیشن جماعتوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں ہے جب کہ جمعیت علما ء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمنٰ ان ہاؤس تبدیلی کے بجائے نئے انتخابات چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آئین میں ترمیم، نئی قانون سازی کے لیے وزیرقانون فروغ نسیم کی سربراہی میں 8 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے اپوزیشن اس کمیٹی سے کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی اور وہ فیصلہ کن حیثیت رکھنے والی قوتوں سے ’’معاملہ ’‘‘ کرے گی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس 20دسمبر2019ء تک جاری رکھا جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کے’’کشیدہ تعلقات ‘‘کے باعث رواں سیشن ہنگامہ خیز ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر ہوسکتا تھا اگر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے مابین بامعنی مشاورت ہوجاتی لیکن یہ مشاورت وزیر اعظم کی سیاسی اناء اور ضد کی نذر ہوئی ہے۔ ملکی سیاسی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اپوزیشن کام کرنا چاہتی ہے اور حکومت رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ غیر سیاسی اور غیر جمہوری رویے کے باعث الیکشن کمیشن جیسا آئینی ادارہ اس وقت تقریبا معطل ہے۔ آئین میں 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد آئین میں کچھ سقم رہ گئے جس سے حکومت اور اپوزیشن کو پریشان کن صورتحال کا سامنا ہے۔ آئین میں ترمیم کرکے جہاں چیف الیکشن کمشنر کے صوابدیدی اختیارات کم کر دیے گئے تھے وہاں چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کے تقرر کے لیے پارلیمنٹ نے پہلے کڑی شرط لگائی لیکن اب وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان بامعنی مشاورت کی شرط ایک کڑی شرط معلوم ہورہی ہے۔ حالیہ بحران اسی کا نتیجہ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’ڈیڈ لاک‘‘ ہونے کی صورت میں ایک راستہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس ہے‘ وہاں ناکامی کی صورت میں معاملہ عدالت عظمیٰ کے سپرد کیا جانا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ آئینی بحران ایک بار پھر عدلیہ کے دروازے پردستک دے رہا ہے۔ یہ آئینی بحران اس لیے ہے وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے براہ راست مشاورت کیلیے تیار نہیں ہیں، دونوں میں اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی وساطت سے گفتگو ہورہی ہے۔ ایک فریق دوسرے کو چور اور دوسرا فریق سلیکٹڈ وزیر اعظم کا طعنہ دے رہا ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ آج کل چور اور سلیکٹد کی بحث میں الجھی ہوئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی’پارلیمانی امور طے ہونے میں رکاوٹ ہے۔ الیکشن کمیشن کے عملاً ’’غیر فعال‘‘ ہونے کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا ہے جب تک الیکشن کمیشن فعال نہیں ہوگا اس وقت فارن فنڈنگ کیس بارے میں کسی پیش رفت نہیں ہوگی۔ گزشتہ ہفتے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الیکشن کمیشن کے2 ارکان کے تقرر پر اتفاق ہوگیا تھالیکن چیف الیکشن کمشنر کا تقرربھی ایک ساتھ کرنے کے معاملے پر ڈیڈ لاک ہے۔ اپوزیشن ارکان راجا پرویز اشرف اور سینیٹر مشاہد اللہ خان نے موقف اختیار کیا ہے کہ’’ہم الیکشن کمیشن کی تشکیل ایک ہی دفعہ چاہتے ہیں،الیکشن کمیشن میں کام اس لیے رکا ہوا ہے کہ وزیر اعظم،اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے۔ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے دونوں ارکان کیلیے تین،تین نام تجویز کیے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے سندھ سے رکن کیلیے جسٹس ریٹائرڈ صادق بھٹی، جسٹس ریٹائرڈ نورالحق قریشی اورعبدالجبارقریشی اور بلوچستان کیلیے ڈاکٹرفیض محمد کاکڑ، میرنوید جان بلوچ اورامان اللہ بلوچ کے نام تجویز کیے جب کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سندھ کیلیے نثار درانی، جسٹس(ر) عبدالرسول میمن اورنگزیب حق اور بلوچستان سے شاہ محمود جتوئی ایڈووکیٹ، سابق ایڈووکیٹ جنرل محمد روف عطااورراحیلہ درانی کے نام تجویز کیے ہیں اور الیکشن کمیشن ارکان کے تقرر کیلیے قائم پارلیمانی کمیٹی میں 2ارکان بھی تبدیل کر دیے گئے،مسلم لیگ (ن)کے مرتضیٰ جاوید عباسی کی جگہ شیزا خواجہ فاطمہ کو کمیٹی کا رکن بنایا گیا ہے جبکہ حکومتی رکن فخر امام کی جگہ پرویز خٹک کو شامل کرلیا گیا ہے۔ن لیگ کے صدر شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کی علالت کے باعث لندن میں ’’ڈیرے‘‘ ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ لندن بیٹھ کر بھی پاکستان میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی وزیر اعظم عمران خان کو چیف الیکشن کمشنر کیلیے 3نام تجویز کر دیے۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے نام ایک ہفتے میں ہی 2 خطوط لکھے ہیں جس میں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کے لیے ناصرمحمود کھوسہ، جلیل عباس جیلانی اور اخلاق احمد تارڑ کے نام تجویز کیے ہیں۔آئین کے آرٹیکل 213 ٹو اے کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرے۔ شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان سے خط میں کہا کہ میری دانست میں آئین کے تحت آپ کو مشاورت کا یہ عمل بہت عرصہ قبل شروع کرنا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر کیلیے جو 3نام تجویز کیے ہیں ان میں بابر یعقوب، فضل عباس میکن اور عارف خان شامل ہیں۔ اپوزیشن نے آئین کے آرٹیکل 213میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک کی صورت میں عدالت عظمیٰسے رہنمائی کیلیے رجوع کر لیا ہے اوراسلام آباد ہائی کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن ارکان کے تقرر کے معاملے کے حل کیلیے حکومت 10 روز کی مہلت دے دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن میں کیے جانے والے تقرریوں کے حوالے سے کس حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔