دنیا میں 30کروڑ پاکستان میں ایک کروڑ80لاکھ معذور ہیں

2445

  تحریر: محمد علی فاروق 

کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہاں رہنے والے تمام افراد اپنی استعداد کے مطابق اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے افراد جو کسی معذوری کا شکار ہوتے ہیں،انہیں ہم ازخود ہی بھکاریوں کا درجہ دے دیتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک نے انہیں ”خصوصی افراد” کا درجہ دے کر کئی دہائیوں قبل ہی اس بات کی کوشش شروع کردی تھی کہ ان افراد کی معذوری کو ان کی مجبوری نہ بننے دیا جائے اور کچھ ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے ذریعے وہ بھی عام افراد کی طرح اپنے روز مرہ کے امور انجام دے سکیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں 30کروڑ افراد جسمانی طور پر معذور ہیں،جن میں سے 80فیصد کا تعلق ترقی پذیرممالک سے ہے، اوراقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی دس فیصد آبادی کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے اورایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی تیس کروڑ آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان میں ایک کروڑ80 لاکھ افراد جسمانی، ذہنی، نا بینا اور بولنے اور سنے سے معذور ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے ہمارے ملک میں معذور بچوں کی اسی فیصد تعداد مناسب سہولتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتی ہے پاکستان میں کوئی مناسب ایسا سرکاری ادارہ موجود نہیں ہے،جو معذور افراد کے حقوق کے لیے بہتر انداز میں انہیں تعلیم و ہنر سکھانے کے لیے سنجیدگی سے کام کرے اور ان کی زندگی کو آسان بنانے میں مددگار ثابت ہومعذور افراد کے بارے میں حکومت کی عدم دلچسپی پر مایوسی ہوتی ہے،معذور افراد ملک کا سرمایہ ہیں انہیں سہولیات دے کر معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جا سکتا ہے۔پاکستان میں یہ بات بطور خاص دیکھی گئی ہے کہ ہم لوگ ان خصوصی افراد کو رحم کی نگاہ سے تو دیکھتے ہیں اور ان کی مدد کرنے کی کوشش بھی جاتی ہے لیکن یہ تعاون صرف چند پیسوں تک محدود ہوتا ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف حکومت،فلاحی ادارے،صنعتی ادارے اور عام افراد بھی اس طرح کے اقدامات کریں جن کے ذریعے وہ اپنے آپ کو دوسروں سے علیحدہ نہ سمجھیں اور معاشرے میں اپنا متحرک کردار ادا کرسکیں۔پاکستان میں خصوصی افراد بہت زیادہ مسائل کا شکار ہیں۔ملک میں معذوری سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے سبب اداروں کی انتظامیہ اور کارکنان خصوصی افراد کی ذہنی صلاحیتوں کا احاطہ نہیں کرپاتے ہیں۔ انہیں اعلی تعلیم اور مہارتوں کی بجائے صرف جسمانی معذوری کی بنا پر ملازمت کے لیے رد کردیا جاتا ہے یا ان کی قابلیت کے لحاظ سے بہت کم تنخواہ کی پیش کش کی جاتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں معذورین کے لیے قابلِ رسائی ٹیکنالوجی اور مددگار آلات کی بدولت سماعت اور بصارت سے محروم افراد بھی آفس ورک باآسانی کرلیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی کاروباری اداروں کی انتظامیہ کو اس ضمن میں تربیت کی ضرورت ہے اور انہیں معذوری کی اقسام کے مطابق اپنے اداروں میں ملازمتیں پیدا کرنے کی آگاہی ملنی چاہیے۔ پاکستان نے معذور افراد کی بحالی کے عالمی کنونشن بھی دستخط کیے ہوئے ہیں اور ریاست ان معذور افراد کی بحالی کی ذمہ دار ہے،معذور افراد کے لیے حکومت کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں ہے،حکومتی شخصیات معذوروں کی زندگی سنوارنے اور ان کے تمام حقوق دینے کے وعدے تو کرتی ہیں لیکن افسوس ان وعدوں کو وفا کرنے کا عملی مظاہرہ کسی بھی سطح پر نظر نہیں آتایہاں پربڑی غورطلب بات یہ ہے کہ معذورافراد کے لیے ملازمتوں کا کوٹہ بھی مخصوص کیا گیا جن کا اطلاق تمام سرکاری نیم سرکاری اور پرائیوٹ اداروں پر ہوتا ہے تاکہ معذور افراد کو ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جا سکیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے معزور افراد کے کوٹہ کا قانون صرف کتابوں تک ہی رہ گیا ہے، ہر ادارہ ملازمت کے حصول کے لیے اپنی مرضی سے کوٹہ بناتا ہے جبکہ کئی ادارے تو اس کو مناتے ہی نہیں اور معذور افراد کو ملازمت کے حصول کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑ تی ہیں وہ بچارے تو پہلے ہی زمانے کے ستائے ہوئے افراد ہوتے ہیں، ادارے ان کیساتھ ایسا سلوک کرکے ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور وہ زمانے کے ستائے معزور افراد بھیک منگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اگر تمام قوانین اور حوصلہ افزائی صرف دکھاوا ہے تو ان افراد کے ساتھ اتنا بڑا مذاق کیوں کیا جاتا ہے، معذور افراد کو معاشرے میں اپنی جگہ بنانے اور ایک با عزت زندگی گزارنے میں ویسے ہی انتہا دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے میں حکومت وقت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان معذور افراد کی دیکھ بھال اور نگہداشت میں اپنا حصہ ڈالے لیکن حکومت کی بے حسی کی وجہ سے معذور افراد کوان کے جائز حقوق نہیں مل رہے ہیں۔اگر حکومت صحیح معنوں میں خصوصی افراد کی مدد کرنا چاہتی ہے، سوشل ویلفئیر ڈیپاٹمنٹ اور این جی اوز کے ذریعے گھریلو صنعت میں معذور افراد کو استعمال کیا جاسکتا ہے اور معمولی نوعیت کے اسکیل ڈویلپمنٹ پروگرام کے ذریعے تربیت فراہم کر کے کاروباری پرائیوٹ اداروں میں لوڈنگ ان لوڈنگ،صفائی، اور آفس ورک کے کام باآسانی کروائے جاسکتے ہیں جبکہ انہیں 50ہزار سے 5لاکھ روپے تک کا قرض حسنہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ چھوٹے کاروبار کے ذریعے اپنا روزگار کما سکیں اورمعذور افراد کے لیے ہیلتھ کارڈ کے اجرا کے ساتھ ساتھ سفری کرائے میں رعایت بھی یقینی بنانی چاہیے۔ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی موٹر سائیکل اور موٹر کار کمپنیاں معذور افراد کے لیے مقامی سطح پر موٹر سائیکل اور گاڑیاں ڈیزائن کرکے نہ صرف اپنے صارفین کی تعداد بڑھا سکتی ہیں بلکہ لاکھوں معذور افراد کو متحرک بھی کرسکتی ہیں اور اگر حکومت غریب معذور افراد کو پرانی گاڑیاں در آمد کرنے میں ٹیکس کی چھوٹ دے دی جائے تو بھی ان افراد کی سفری مشکلات میں کافی حد تک کمی آ سکتی ہے۔دنیا بھر میں اس طبقے کو خصوصی افرادکا نام دیا گیا ہے، تاکہ ان کا احساس محرومی ختم ہوسکے مگر صرف انہیں یہ نام دینا کافی نہیں ہے بلکہ ان کے لیے حقیقی معنوں میں خصوصی اقدامات زمانہ عصر کی حقیقی ضرورت ہے۔اگر معذور افراد کے لئے سرکاری اداروں میں روزگار کی فراہمی کوٹے کے تحت یقینی بنا دی جائے تووہ اپنے پاوں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔یہ وقت کی ضرورت ہے کہ معذور افراد کو تنہائی کا شکار بنانے کے بجائے معاشرے میں ضم کیا جائے۔ معذور افراد کے لئے تعلیم، صحت، نوکری اور قومی و صوبائی اسمبلی میں نشستیں مختص کی جائیں۔ معذور افراد کے حقوق کی پاسداری کا حکم قرآن پاک میں بھی ہے۔اسلام نے معذور افراد پر کسی طرح کا معاشی بار نہیں رکھا ہے۔ معذور افراد معاشرے کا حسن ہیں اور یہ حسن ہمارے تعاون اور احساس کے بغیر ناممکن ہے۔اس لیے ضرورت اِس امر کی ہے کہ معذور افراد سے اظہار و ہمدردی، محبت اور شفقت کے جذبے کو پروان چڑھانے کیلئے مثبت اقدامات فی الفور بروئے کار لائے جائیں جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ بہت ساری تنظیموں اور معاشر ے کو ان کی بحالی کے لیے مثبت کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ وہ بھی سکون کی زندگی گزار سکیں۔