سچ کی تلاش الوداع

394

عباس عالم
بہت پہلے کی بات ہے جناب۔ کوئی پچیس برس پہلے کی۔۔ جب ہم نے نیا نیا اخبار جوائن کیا تھا۔ پروفیشن بھی نیا تھا اور سوچنے سمجھنے کی توانائی بھی زیادہ تھی اس لیے طرح طرح کے سوالات ذہن میں اٹھتے رہتے تھے۔ مثلاً ہم اکثر سوچا کرتے تھے کہ ہم تو خبروں میں سچ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم کو یہ خبریں جن جن ذرائع سے ملتی ہیں وہ صرف گنتی کی چند مغربی خبر ایجنسیاں ہیں جن کے نظریات آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ کوئی اور مصدقہ ذریعہ تو ہے نہیں۔ تو پھر اس کا کیا ثبوت ہے کہ ہم جو بات لکھ رہے ہیں وہ سچ ہے یا نہیں۔ جب ذرائع صرف چند ہوں گے اور ان کا نظریہ بھی ملتا جلتا ہوگا تو ظاہر ہے خبروں میں یک طرفہ پن اور جانبداری آجانی لازمی ہے ہمیں خیال آتا۔ اور پھر ہم ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھنے لگتے جہاں خبروں کے ذرائع زیادہ ہوں گے اور ان کے نقطہ ہائے نظر اور نظریات مختلف ہوں گے تاکہ ہم چین کی خبر کے لیے چینی ذرائع کا سہارا لیں، روس کی خبر کے لیے وہاں کا میڈیا کھنگالیں اور لاطینی امریکا کے کسی ملک میں آنے والے زلزلے کا پتا وہاں کے کسی اخبار سے لگا سکیں۔ ذرائع کی اس محدودیت اور تنگ نظری کا اندازہ ہم کو خاص کر اس وقت زیادہ ہوا جب ہم نے الجزائر اور ترکی کے الیکشن کے حوالے سے خبریں بنائیں۔ صاحب یقین کریں ہر خبر بناتے بناتے ہاتھ رک جاتا تھا۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ خبر میں پورا تو کیا آدھا سچ بھی نہیں ہے جس کی انگلی پکڑ کر ہم باقی کے سچ کو ٹٹول سکیں۔ لیکن چارہ کیا تھا کچھ بھی نہیں۔
وہ لمحے گزر گئے وہ دن بیت گئے انٹرنیٹ آگیا گوگل چھا گیا اور وکی لیکس نے بھی اپنا جلوہ دکھا دیا گویا اطلاعات کی دنیا کی کائنات ہی بدل گئی۔ سال پر سال گزرتے گئے اور پھر اس لمحے کو بیتے دہائیاں گزر گئیں جب کبھی ہم نے یہ سب سوچا تھا۔ آخر کچھ دن پہلے بیٹھے بیٹھے اچانک ہمیں خیال آیا کہ اب ذرا اخبارات نیوز چینلز اور میڈیا کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔ اب تو شاید دنیا بھر کی خبریں دنیا بھر کے ذرائع سے مل رہی ہوگی۔ خبروں میں بہت سارے رنگ ہوں گے۔ انواع و اقسام کے پہلو ہوں گے۔ اور تمام نقطہ ٔ نظر کو برابر نمائندگی مل رہی ہوگی لیکن یہ مشاہدہ کرکے ہمیں کچھ حیرت اور کچھ صدمہ ہوا کہ بھئی ایسا تو کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ اب بھی نیوز میڈیا اور اخبارات پر انہی چند مغربی خبر ایجنسیوں کا جادو چلتا ہے جو 25 سال پہلے میڈیا پر مسلط تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کا جواب کیا ہے؟ جواب تو کوئی سازشی تھیوری سوچ کے دیا جاسکتا ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس بات کو کسی مختلف انداز سے بھی سوچا جا سکتا ہے۔ آئیے خبروں کی دنیا سے باہر نکلتے ہیں اور آج کی دنیا کے ایک چھوٹے سے تصور کو سمجھتے ہیں جو ہماری زندگیوں کو ڈیفائن کر رہا ہے۔ یہ تصور سہولت یا convenience کا تصور ہے۔ یعنی آج کل ہم سہولتوں کی تلاش میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ جب بھی ہم کو ایک کام کرنے کے دو آپشن نظر آئیں۔ ایک دشوار اور ایک با سہولت تو ہم بلا کھٹکے با سہولت آپشن کو منتخب کرتے ہیں۔ آئیے کسی سامنے کی مثال سے بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
دیکھیے۔ شارع فیصل سے ائرپورٹ جاتے ہوئے ڈرگ روڈ کے موڑ سے پہلے دو پٹرول پمپ بنے ہوئے ہیں۔ ایک پٹرول پمپ پر پٹرول پورا ملتا ہے لیکن پٹرول بھروانے کے لیے گاڑی سڑک سے ہٹا کر باقاعدہ پمپ کے احاطے کے اندر داخل کرنی پڑتی ہے کیونکہ پمپ تھوڑا سا اندر لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے پمپ پر پٹرول کا میٹر غلط ہے لیکن وہ اس طرح نصب ہے کہ ہم اسٹیئرنگ کو ذرا سا ترچھا کرتے ہیں اور سڑک کے بالکل ساتھ کنارے پر ہی پمپ میسر آجاتا ہے۔ اب یہاں ایک آپشن بہت بہتر مگر معمولی سا دشوار ہے جبکہ دوسرا آپشن آسان تو بہت ہے لیکن مالی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اور یقین مانیں کہ اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی بہت سے لوگ شام کی تھکاوٹ کے عالم میں اس باسہولت لیکن فراڈ آپشن کو منتخب کرلیتے ہیں۔ یعنی سہولت کا حصول اس قدر اہم ہو چکا ہے کہ آپ سہولت کی خاطر سہولت سے زیادہ اہم چیزوں یعنی دیانت اور بچت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ آئیں واپس خبروں کی دنیا کی طرف مڑ جاتے ہیں۔ یہاں بھی وہی نفسیات کار فرما نظر آتی ہے یعنی کچھ خبریں آپ کو سہولت سے ملنے لگی ہیں کبھی وہ فون اسکرین پر نمودار ہوجاتی ہیں۔ کبھی وہ ٹی وی پر نظر آ جاتی ہیں۔ ان کا انداز دلچسپ معلوم ہوتا ہے وہ آپ کو اپنے اندر انگیج کرتی ہیں اور آپ کی نفسیات کے بعض پہلوؤں سے اچھی طرح کھیلتی ہیں۔ تو بس آپ ان خبروں کو صرف اس لیے قبول کرلیتے ہیں کہ آپ کو سہولت سے دستیاب ہوگئی ہوتی ہیں اور آپ کے ذہن کو چیلنج بھی نہیں کر رہی ہوتیں۔ ان خبروں کو حاصل کرنے میں نہ تو آپ کو کوئی جسمانی مشقت کرنا ہوتی ہے اور نہ آپ کے ذہن کو کوئی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ اس لیے اس سہولت کو چھوڑ کر اور مشقت کرکے آپ وہ خبر تلاش نہیں کرتے جو زیادہ سچ لیکن شاید ملنے میں دشوار بھی ہوگی اور آپ کے ذہن کے لیے قابل قبول بھی کم ہو گی۔ یوں سہولت نے سچائی کو شکست دے دی ہے۔
اب یہ بات کتنی دلچسپ لیکن فکر انگیز ہے لیکن ہے سچ۔ یعنی اب خبروں کے صارفین اور ماہرین اس سہولت کے دسترخوان پر موجود انواع و اقسام کی مرغن خبروں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ لیکن زیادہ سچی خبروں کی کسی کو پروا نہیں رہی ہے۔ تو پچھلے پچیس سال میں اگر کوئی فرق پڑا ہے تو بس اتنا کہ پہلے درست خبر ملتی نہیں تھی اور اب اس کو کوئی تلاش نہیں کرتا۔ ہم سوچتے ہیں شاید پہلے والا دور بہتر تھا کم از کم آپ خود کو یہ کہہ کر بہلا تو سکتے تھے کہ درست خبر ہمیں میسر ہی نہیں آ رہی تو ہم لوگ کیا کریں؟؟ اب تو یہ دل بہلاوا بھی ختم ہوا۔ معلوم ہوا کہ لوگ سچ کی تلاش کو ہی خیرباد کہہ چکے ہیں۔ سچ کی تلاش کو خیر باد کہہ دینا بھی کوئی ایسی بری بات نہیں اگر آپ کو معلوم ہو کہ آپ سچ کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ لیکن اگر آپ تاریخ کے کسی ویران موڑ پر سچ کو الوداع کہہ آئے ہوں لیکن شام کی ملگجی تاریکی میں آپ کو اندازہ بھی نہ ہو سکا ہوکہ آپ نے کیا ہے تو پھر کیا ہوگا۔ یہ منظر نگاری افسانے جیسی ہے لیکن شاید یہی ٹھیک بھی ہے کیونکہ کسی فارسی شاعر نے کہا ہے کہ بات تلخ ہو تو اس کو افسانوی رنگ میں کہنا ہی اچھا لگتا ہے۔