آج کا دن کیا مطالبہ کرتا ہے

280

مقبوضہ کشمیر میں اٹھائے جانے والے پانچ اگست کے اقدام کے بعد‘ تحریک انصاف کی حکومت اور ملک کی سیاسی جماعتوں کا رد عمل دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید کشمیر صرف جماعت اسلامی اور سراج الحق کا مسئلہ ہے اس لیے کشمیر بچائو مہم اور کشمیر مارچ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لیے حکومت پاکستان کی سیاسی اخلاقی اور سفارتی حمایت زندہ درگور ہوچکی ہے‘ یہ بات بھی درست اور ریکارڈ کا حصہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے 1990 سے‘ جب مسلح جہدوجہد شروع ہوئی تب سے یورپ‘ امریکا اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کی کوششوں سے متعدد فارمولے پیش کیے گئے‘ یہ بات بھی درست ہے بس سروس‘ اس کے بعد ٹرک سروس بھی اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر ہی شروع کی گئی‘ یہ بھی کہا گیا کہ ایک ایسا قدم بھی اٹھایا جائے کہ دونوں طرف کی کشمیری قیادت باہمی ملاقات کرے اور باہم مل کر مسئلے کا حل تلاش کیا جائے اور امن کا راستہ نکالا جائے‘ یہ بھی تجویز اس وقت دی گئی تھی کہ دونوں جانب کی اسمبلیوں کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا جائے‘ لیکن ان میں کہیں کوئی ایک بھی لمحے کے لیے بھی یہ تجویز نہیں دی گئی کہ کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت سے محروم کرکے کوئی فیصلہ کیا جائے‘ جیسا کہ اب بھارت نے کیا ہے۔ بھارت کے اس فیصلے کے خلاف‘ حکومت پاکستان کا رد عمل نقش بر آب ثابت ہوا ہے اور اب ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے وزیر اعظم کی تقریر گھول پر پینی ہے یا تعویز بنا کر گلے میں ڈالنی ہے
اور نہ ہی وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں اس بارے میں کوئی بات کی اور نہ ہی ہلکا سا کوئی اشارہ دیا ہے۔
پانچ اگست کو گزرے آج ایک سو ستائیس روز ہوچکے ہیں‘ حکومت کی بے حسی اپنی جگہ‘ قومی پرنٹ میڈیا کا کردار بھی قابل رشک نہیں ہے۔ پانچ اگست سے لے کر آج تک‘ کتنی بار بھارت کے اقدام کو غلط قرار دے کر حکومت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی گئی؟ تحریک انصاف بس اسی پر اترا رہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہے ایک پیج پر ہونا خوشی کی بات ہے‘ ہونا چاہیے لیکن پوری قوم کو اس ایک پیج پر لے کر آئیں‘ پاکستان کے عوام کی خوشحالی، ترقی، امن، روزگار، جینے کا حق بھی سمجھا جائے۔ معلوم تو ایسا ہو رہا ہے کہ حکومت قبضہ مافیا کے ساتھ ہے اس لیے تو کشمیر پر بھارت کے قبضے پر رد عمل نہیں دے رہی‘ یہ قبضہ مافیا تو ملک کے ہر بڑے شہر میں کام کر رہا ہے‘ لاہور میں تو ایکسائز کے محکمے کے ملازم جعلی کاغذات بنا کر لوگوں پلاٹوں پر قبضے کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں قبضہ گروپوں کے بعد بڑا مافیا تجاوزات مافیا ہے۔ کراچی میں تو اس کئی گنا بڑا مافیا کام کر رہا ہے‘ ایک ایسی حکومت جس کی ناک کے نیچے یہ کام ہو رہا ہو اس سے کشمیر پر بھارت کے قبضے کے خلاف رد عمل کی توقع رکھنا عبث ہے…
اس حکومت کا کیا ہے جس نے کشمیری حریت پسند رہنماء سید علی گیلانی کے دو خطوط کا جواب دینا تک گوارہ نہیں کیا‘ یوں ہمیں وزیر اعظم عمران خان اور پرویزمشرف ایک پیج پر نظر آرہے ہیں۔ سید علی گیلانی نے دس دسمبر کو انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے عالمی دن کے موقع پر یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے مقصد یہی ہے کہ اس روز احتجاج کا مقصد عالمی برادری کی توجہ کشمیر کی سنگین صورت حال کی طرف مبذول کرائی جائے تنازع کشمیر حل کروانا اور بھارتی مظالم رکوانا اقوام متحدہ کی ذمے داری ہے۔ مصائب کے باوجود علی گیلانی میدان میں ہیں ان کے عزم میں کمی نہیں آئی‘ وزیر اعظم بھی میدان کے کھلاڑی رہے ہیں لیکن آج کل ڈریسنگ روم میں بیٹھے ہوئے ہیں، کشمیریوں کے مصائب کا اصل سبب تو خاموش عالمی برادری ہے لیکن وزیر اعظم کو تو بولنا چاہیے کہ وہ کشمیریوں کے وکیل ہیں کشمیریوں کا معاملہ صرف بھارت اور کشمیریوں کا ہرگز نہیں بانی ٔ پاکستان قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا لیکن یہ شہ رگ بھارت کے قبضے میں جانے کے باوجود خاموشی ہے اور سب زبانی جمع خرچ ہو رہا ہے عالمی برادری بھی خاموش ہے کشمیریوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے جو اپنے بنیادی سیاسی حق سے محروم کیے جارہے ہیں سید علی گیلانی نے عالمی برادری کو انسانی حقوق کے روز کے حوالے سے جھنجھوڑا ہے۔