طلبہ یونینوں کا مطالبہ کرنے والے کہاں گئے

432

کئی روز سے پاکستان کا میڈیا ایک سڑی ہوئی لاش سر پر اٹھائے پھر رہا تھا اور اس کی کوشش تھی کہ حکومت سیاسی، جماعتیں، تمام طلبہ تنظیمیں اور سماجی تنظیمیں وغیرہ اسے کاندھا ضرور دیں اور میڈیا کے دبائو میں ہر ایک کو یہی کہنا پڑا کہ طلبہ یونینوں کے انتخابات ہونے چاہئیں۔ لیکن اس حوالے سے ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طلبہ یونین پر 1984ء میں پابندی لگی تھی اور ملک کی جو سیاسی قیادت ہے ان میں چند ایک لوگ ایسے ہیں جو طلبہ یونینوں اور ان کے نظام سے واقف ہیں۔ ورنہ 35 برس قبل جو لوگ تعلیمی اداروں میں گریجویشن یا انٹرمیڈیٹ کی سطح پر موجودہ سیاسی یا پارلیمانی قیادت نہیں تھی۔ عمران خان معذور ہیں کہ انہوں نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی۔ فواد چودھری، مراد سعید، فیصل واوڈا، بیرسٹر فروغ نسیم، علی محمد خان وغیرہ اس دور کے ہیں جب یونین الیکشن پر پابندی تھی۔ اسد عمر بھی اس دور کے ہیں جب یونین الیکشن نہیں ہوتے تھے، پھر یہ لوگ یونینوں کے بارے میں کیا فیصلہ کریں گے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں اب بھی ایسے لوگ ہیں جو یونین کو اچھی طرح جانتے تھے ان میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی ہیں اور خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، مشاہد اللہ وغیرہ ہیں۔ اب اس معاملے پر میڈیا پروپیگنڈے اور حقائق کا بھی جائزہ لیا جائے تو بات کچھ کھل جائے گی۔ جس وقت یونینوں کے انتخابات ہوتے تھے اس وقت طلبہ یونین تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی معاونت بھی کرتی تھیں اور طلبہ میں ہم نصابی سرگرمیاں، اس کی تعلیمی اور علمی استعداد میں اضافے کے لیے سرگرمیاں کرتی تھیں۔ تقریری مقابلے، مباحثے، ادبی عدالتیں، مشاعرے، کھیلوں کی سرگرمیاں وغیرہ بھی ان میں شامل تھیں۔ جامعہ کراچی میں تو طلبہ یونین سیمسٹرز کا نظام، امتحانات کا شیڈول وغیرہ بھی درست کرواتی تھیں۔ جامعات کے مکھی پر مکھی مارنے والے افسران اکثر امتحانات کے شیڈول میں محرم، چہلم، ربیع الاوّل اور دیگر اہم دن پر اور عام تعطیلات کا لحاظ نہیں رکھتے تھے بعد میں عین ایک دو دن قبل شیڈول بدلنا پڑتا تھا۔ لیکن جب یونینوں کا عمل دخل ہوا تو یہ غلطیاں بھی بند ہوگئیں جو آج کل پھر عام ہیں۔
طلبہ کو مستقبل کا معمار کہا جاتا ہے لیکن گزشتہ پینتیس برس سے مستقبل کے معماروں کو معماری کی تربیت نہیں دی جارہی، ان کو یہ بتایا ہی نہیں جارہا کہ کسی ادارے کا انتظام کیسے چلایا جاتا ہے۔ بلکہ اس سے دور بہت دور رکھا جارہا ہے۔ اس کا نتیجہ اسمبلیوں اور وزارتوں میں منہ سے جھاگ اڑاتے مقررین، ایک نوٹیفکیشن بنانے میں تین مرتبہ غلطیاں اور اُلٹے سیدھے فیصلے انڈے مرغی، کٹے وغیرہ۔ جب کہ طلبہ یونین کے حوالے سے ہمارے وزیراعظم کہہ گئے کہ طلبہ یونین پرتشدد ہوتی ہے، چوں کہ وہ اس سے واقف ہی نہیں اس لیے انہیں یہی کہنا چاہیے تھا، ہمیں یہ یقین ہے کہ جس طرح مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے یہ کام نہیں کیا، پی ٹی آئی بھی طلبہ یونینوں کے انتخابات نہیں کرائے گی کیوں کہ یونینوں کے بارے میں معلومات ہوں یا نہ ہوں ان کو یہ ضرور معلوم ہے کہ یہاں سے قیادت اُبھرتی ہے اور اس سے ان کی جان نکلتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان ہوں یا سیاسی جماعتیں اصل کمال اِس سڑی ہوئی لاش کو کاندھے پر اُٹھانے والوں کا ہے اور جب لاش کسی اور کی ہو تو نوسرباز ایسا کرتے ہیں کہ ابتدا میں تو خود اُٹھائے پھرتے ہیں، پھر لاش اُٹھانے والے غائب ہوتے ہیں ہمدردی رکھنے والے اسے لیے چل رہے ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ اس مردہ گھوڑے کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ سرخ اور رنگوں کی بات دفن ہوئے کئی عشرے گزر گئے اب سارے سرخ سارے لبرلز سب کے سب ایک پلڑے میں ہیں اور وہ ہے مفادات کا پلڑا۔ 1970ء اور 1980ء کے عشروں کے سرخے اب امریکی کیمپ میں ہیں۔ یہی لوگ کچھ دنوں میں چینی کیمپ میں ہوں گے اور اگر ضرورت پڑی اور روس پھر اس خطے میں طاقتور ہوگیا تو یہ واپس وہیں کھڑے ہوں گے لیکن چین روس خود اب مائو اور لینن سے تائب ہوچکے ہیں۔ لال لال لہرائے گا والے اُٹھے میڈیا نے مدد کی اب لاش کو حکومت پاکستان، حکومت سندھ، سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کے کاندھوں پر ڈال کر یہ لوگ ٹی وی چینلوں کے مباحثوں میں بیٹھے نظر آرہے ہیں۔ ارے جدوجہد کرو، سڑکوں پر نکلو، ڈنڈے کھائو، مقدمات کا سامنا کرو۔ لیکن مسئلہ طلبہ یونین نہیں ہے۔ اسی لیے 295 سی کا خاتمہ بھی مطالبات میں ہے۔ نابالغوں یعنی 18 سال سے کم عمر کی شادی بھی ان کا مسئلہ ہے اور خواتین کے حقوق بھی اب وہ لال لال لہرائے گا، کی لاش طلبہ یونینوں کے نام پر دوسرے کاندھوں پر چھوڑ آئے ہیں اور خود ٹی وی سنبھال لیا ہے۔ اب طلبہ یونینوں کے انتخابات ہوں یا نہیں ایک نیا ٹولہ پرانے ناموں کو استعمال کرتا ہوا سامنے آگیا ہے۔ یہ اسی فیکٹری کی پیداوار ہے جہاں سے ایم کیو
ایم، پی ٹی آئی، پشتون موومنٹ اور طرح طرح کی چیزیں سامنے آتی ہیں پھر اپنا کردار ادا کرکے غائب ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری اس کی مثال ہیں۔ 14 افراد کا بدلہ لینے آئے تھے سیاست سے ریٹائر ہو کر چلے گئے۔ چیف جسٹس اور آرمی چیف کو سرعام گالیاں دینے والے آئے اور دھرنا ختم کرکے نوٹ لے کر چلے گئے۔ ان سب کو میڈیا نے اسی طرح اچھالا تھا جیسا کہ اب لال لال والوں کو اچھالا ہے۔ طلبہ یونینوں کے دور میں مباحثے ہوتے تھے، ایک گروپ موافقت میں بولتا تھا اور دوسرا مخالفت میں۔ لیکن ہمارے ایک دوست کہتے تھے کہ بعض پیشہ ور مقرر ہیں وہ مخالفت میں بولتے ہیں نہ موافقت میں، یہ منافقت میں بولتے ہیں، اسٹیج جو چاہیے ہوتا ہے اب کوئی یونین الیکشن نہیں کرائے گا سب ایک ہوگئے ہیں، موافقت میں نہ مخالفت میں صرف منافقت میں ہیں۔