انصاف نظر بھی آئے

269

عمران خان نیازی کی پارٹی کا نام ہی تحریک انصاف ہے اور ان کا انتخابی نعرہ انصاف پرمبنی معاشرے کا قیام تھا جہاں پر ہر بدعنوان کا بلا امتیازاحتساب کیا جائے اور اسے اس کے کیے کی قرار واقعی سزا دی جائے گی ۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہر بدعنوان سے لوٹا گیا مال برآمد کیا جائے گا جس کے لیے ملک کوسائل بھی استعمال کیے جارہے ہیں ۔ اس کی تازہ مثال تو ملک ریاض ہی ہے ، برطانوی عدالت کی سزا میں دیے گئے جس کے جرمانے کو پاکستانی عدالت کے جرمانے میں شمار کرلیا گیا ہے ۔ ملک ریاض اب تک کی آخری مثال تو ہے مگر پہلی نہیں ہے ۔ عمران خان باربار سرکاری اثر و رسوخ استعمال کرکے اپنی پارٹی کی فارن فنڈنگ کے کیس کی تحقیقات میں کامیاب رکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں ۔ اب تو الیکشن کمیشن ہی غیر فعال ہوچکا ہے ۔ جب الیکشن کمیشن فعال تھا تب بھی اس کی تحقیقاتی کمیٹی نے نادیدہ قوتوں کی ہدایت پر کئی برس تک اتنے اہم کیس کی تحقیقات ہی نہیں کی ۔مشرف غداری کیس میں بھی مدعی سے زیادہ عمران خان چستی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اب تک اس مقدمے میں جو بھی تاخیر ہوئی ہے ، اس کی براہ راست ذمہ داری سرکاری وکلاہی پر عاید ہوتی ہے ۔ پشاور بی آر ٹی تو تحریک انصاف کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اب تو پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی میں بھی بدعنوانیوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے ۔ مذکورہ مقدمات میں عمران خان نیازی کی کارگزاری سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں بدعنوانوں کے خلاف گھیرا کتنا تنگ کیا گیا ہے ۔ عملی طور پر سارے بڑے مگرمچھ مزے کررہے ہیں ۔ بس اتنا فرق پڑا ہے کہ اس لوٹ مار کے حصہ داروں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ شروع شروع میں لوٹ میں متعلقہ سرکاری افسران ہی حصہ دار ہوتے تھے ، پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں متعلقہ وزیر، اس صوبے کا وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم ، اس کی حکمراں پارٹی کا سربراہ ، ہر قسم کی تحقیقاتی ایجنسیاں ، نامعلوم ہاتھ اور فیصلہ دینے والے بھی حصہ داروں کی فہرست میں شامل ہوگئے ۔یہی وجہ ہے کہ لٹیروں کی دیدہ دلیری اور بے خوفی میں ہر روز اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اب عوام سے چاہے جتنا بجلی اور گیس کا بل وصول کیا جائے ، چاہے جتنا اور جیسا ٹیکس وصول کیا جائے ، جائز کام بھی بغیر بھاری رشوت کے ناممکن ہے ، ہر چھوٹے مجرم کو اس کے جرم سے زاید سزا دے دی جائے ، ذاتی رنجشوں پر سرکاری وسائل کا استعمال کرکے مخالفین کو بلڈوز کردیا جائے ، اس سب کی بھرپور آزادی ہے ۔ اس وقت ملک عزیز کا جو حال ہے وہ تاریک دور میں یورپ کا بھی نہیں تھا ۔ اس پرسلیکٹڈ وزیر اعظم عمران خان نیازی کا ہر کچھ دن کے بعد بیان آتا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے ۔ عمران خان نیازی کے سلیکٹروں اور عدلیہ کے نئے آنے والے سربراہ سے ہماری گزارش ہے کہ وہ بلاتاخیر اور بلاامتیاز انصاف کی فراہمی کو یقینی بنادیں تو اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔ پاکستان کا واحد مسئلہ ہی یہ ہے کہ جو جتنا بااثر اور بارسوخ ہے ، وہ قانون سے اتنا ہی مبرّا ہے ۔ قانون بنانے والے اور قانون نافذکرنے والے ہی سب سے بڑے قانون شکن ہیں ۔ اگر ہر شخص کو قانون کے دائرے میں لے آیا جائے تو ملک کے سارے مسائل ازخود حل ہوجائیں گے ۔ ملک کی موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ عدالت کا جو حکم پسند آجائے یا جتنا حصہ پسند آجائے ، اس پر تو عملدرآمد کرلیا جاتا ہے جبکہ بقیہ احکامات ردی کی ٹوکری کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ گزشتہ رمضان میں کراچی رجسٹری میں عدات عظمیٰ کے سینئر جسٹس اور آئندہ ہونے والے چیف جسٹس گلزار نے حکم دیا تھا کہ عید سے قبل کراچی سرکلر ریلوے چلادی جائے۔ اس حکم کے تحت ریلوے لائن کے چند کلومیٹر حصے پر راتوں رات بلڈوزر چلادیے گئے ۔ اس کے بعد سے خاموشی ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے احکامات میں واضح کیا تھا کہ ریلوے کی زمین پر آباد لوگوں کو رہایش کے لیے پہلے متبادل جگہ فراہم کی جائے مگر اس کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے اور بے دخل کیے گئے سیکڑوں خاندان اب کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر کراچی سے جو بھی تجاوزات ہٹائی گئی تھیں ، اب پھر سے وہ نئے قابضین کے تصرف میں نظر آرہی ہیں مگر انتظامیہ کو نہ عدلیہ کا کوئی خوف ہے اور نہ کسی احتساب کا ۔ اگر عمران خان نیازی اپنی پارٹی کے منشور کے مطابق ملک میں انصاف کا بول بالا کردیتے تو یقینا ان کا نام پاکستان کی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھا جاتا ۔ عمران خان کی جانب سے ان کے اپنے بیانات کی مسلسل نفی اور کرپٹ عناصر کی عملی پشت پناہی کی وجہ سے انصاف کا چہرہ داغدار ہوچکا ہے ۔ عوام کی امیدیں اب عدلیہ کے نئے سربراہ سے ہیں کہ وہ میرٹ پر بلا تاخیر اور بلا امتیاز عمل کو یقینی بنائیں گے ۔ خصوصی طور پر تحریک انصاف سمیت تمام پارٹیوں کے فارن فنڈنگ کیس ، مشرف غداری کیس جیسے اہم مقدمات پرجو پالیسی نوعیت کے ہیں نظریہ ضرورت کا اطلاق نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی جانب سے کوئی دباؤ قبول کیا جائے گا ۔ اسی طرح پہلے سے دیے گئے فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے گا ۔ اس امر سے کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ جب تک بلاامتیاز احتساب نہیں ہوگا ، ملک کی خارجہ پالیسی ، داخلی حالات اورکرپشن جیسے اہم معاملات اسی طرح گڑ بڑ رہیں گے اور حکومت چاہے جس کے ساتھ ایک صفحے پر ہو مگر عوام کے ساتھ وہ مخالف صفحے پر ہی نظر آئے گی ۔