بلوچستان کے طلبہ کا دہرا امتحان

326

بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال نے کہا ہے کہ صوبے کے وسائل اور اختیارات سے استفادے کے لیے قانون بنا رہے ہیں۔ وہ ضرور یہ کام کریں کہ بلوچستان معدنی اور بحری وسائل سے مالامال صوبہ ہے لیکن جام کمال کے بیان سے ظاہر ہے کہ ان وسائل پر بلوچستان کا اختیار نہیں۔ یہ ایک المیہ ہے تا ہم اس وقت تو ان سے یہ گزارش ہے کہ پہلے صوبے کے اسکولوں کی حالت زار پر توجہ دیں، اس کے لیے مزید اختیارات کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ جمعہ کو برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ میں جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ نہایت شرمناک ہے۔ سخت سردی میں آٹھویں جماعت کے بچے ننگے فرش پر بیٹھے امتحان دے رہے تھے۔ ان کے لیے دری یا چٹائی تک نہیں تھی۔ سردی میں ننگے فرش پر بیٹھے بچوں نے شکوہ کیا کہ سردی سے ان کے ہاتھ، پیر اکڑ گئے ہیں۔ یہ بچے اسکول کے کسی کمرے میں نہیں بلکہ راہداری میں بٹھائے گئے تھے۔ یہ صورتحال بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سمیت 21 اضلاع میں دیکھنے میں آئی۔ اس بد نظمی، بد انتظامی اور معصوم بچوں پر اس ظلم کا ذمے دار کون ہے؟ کیا اس کے لیے بھی کہیں باہر سے وسائل اور اختیارات کی ضرورت پڑے گی ۔اگر بچوں کو مناسب جگہ بٹھانے کی اہلیت نہیں تھی تو امتحانات ملتوی بھی کیے جا سکتے تھے، آخر آٹھویں جماعت ہی کے تو تھے۔ بلوچستان کے مشیر تعلیم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ٹیلی فون پر بتایا کہ وہ اس وقت صوبے سے باہر ہیں اور جلد ہی پہنچ کر معاملات کا جائزہ لیں گے۔ امید ہے کہ وہ اپنے ساتھ چٹائیاں یا دریاں بھی لائے ہوں گے۔ لیکن یہ ضرور بتائیں کہ مشیر تعلیم، وزیر تعلیم اور وزیراعلیٰ نے بلوچستان کے اسکولوں کے لیے اب تک کیا کیا؟ بلوچستان کے حقوق کا تحفظ ضرور کریں مگر معصوم طلبہ کے حقوق بھی ادا کریں۔