انسانی درندگی اور مرجھاتے پھول

910

مہک سہیل
انسانی درندگی کے واقعات قصور کی زینب سے لے کر چار سال کی جنت تک آپہنچے اور پھر اسپتال میں زیرِ علاج معذور خاتون بھی اس درندگی سے محفوظ نہیں۔ اس اذیت میں مبتلا افراد زندگی بھر اس تکلیف کو برداشت کرتے ہیں جن کا بچپن میں استیصال ہوتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ان کا ردعمل مختلف ہوتا ہے، کچھ اس استیصال کو پیچھے چھوڑ آتے ہیں، کئی افراد کو برسوں بعد بھی اس ذہنی تکلیف سے نکلنے کے لیے ہمدردی کے ساتھ ذہنی علاج کی ضرورت ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ بچوں کے جنسی استیصال کا مسئلہ کثیر رخی ہے، زیادہ تر لوگ اس بات کو اپنی ’’عزت‘‘ بچانے کی خاطر سامنے نہیں لاتے، اسی وجہ سے زیادہ تر مقدمات دن کی روشنی نہیں دیکھ پاتے۔ عام ہونے کے باوجود اس طرح کے واقعات شاذ و نادر ہی رپورٹ کیے جاتے ہیں، خاندان تب تک اس طرح کے واقعات کی رپورٹ نہیں کرتے جب تک کہ جسمانی نقصان نہ پہنچا ہو یا بات پھیل نہ گئی ہو۔ اس طرح کے واقعات رپورٹ کرنے کا مرحلہ نہایت پیچیدہ اور طویل کردیا گیا ہے کہ لوگ ایسے واقعات دیکھنے اور سننے سے بھی خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور رپورٹ کرنے سے ڈرتے ہیں اس طرح کے زیادہ تر مقدمات واقعے کے 2 سے 3 دن بعد رپورٹ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے زیادتی کے الزامات کی تصدیق میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، سال 2018 کے دوران ملک بھر میں 3832 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے جب کہ روزانہ کی بنیاد پر جنسی تشدد کے اوسطاً 10 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے 2017 کے دوران ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر روز 9 سے زیادہ بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے رہے ہیں اس بات کو بھی پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا کہ جو لوگ بچوں کی فحش فلمیں بنا کر بیچتے ہیں اور لاکھوں، کروڑوں روپے کماتے ہیں زینب کیس سے پیچھے جائیں تو 2015 میں بھی بچوں سے ریپ کے دوران ان کی فلم بندی کرنے کے سیکڑوں کیس سامنے آئے تھے۔ زیادتی کے بعد قتل کرنے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ایک، ایسا کرنے والے اپنی جنسی تسکین کے لیے بچوں سے زیادتی کرتے ہیں اور انہیں اپنی طاقت کا احساس ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ واقعے کے بعد انہیں پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے اس لیے یہ بچوں کو جان سے مار دیتے ہیں جنسی زیادتی پاکستان کا تیسرا سنگین ترین جرم بن چکا ہے۔ زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہوس کے پجاریوں نے معصوم بچوں کو بھی نہ چھوڑا۔ بچوں کے ساتھ ایسے ایسے دل دہلا دینے والے سانحات رونما ہوتے ہیں، جن کو لکھتے ہوئے قلم بھی تھرتھرا اٹھتا ہے۔ بچوں کا جنسی استیصال پوری دنیا میں بڑھتا جا رہا ہے، مگر ہمارے لیے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ خود ہمارا ملک پاکستان بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ ذرا تصور کیجیے ان والدین پر کیا گزرتی ہوگی جن کے بچوں کو جنسی زیاہ کا نشانہ بنایا گیا ہو اور پھر قتل کردیا گیا ہو۔ غیر سرکاری تنظیم ساحل نے سال 2019 میں بچوں سے زیادتی واقعات کی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق جنوری سے جون تک 1304 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 652، سندھ میں 458، بلوچستان میں 32، خیبر پختون خوا میں 51، اسلام آباد میں 90 جب کہ آزاد کشمیر میں 18، گلگت بلتستان کے 3 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔
زینب کے قاتل عمران کو پھانسی کی سزا دے کر ہم نے سمجھا تھا کہ گرد بیٹھ گئی، بھیڑیے واپس جنگل کی جانب چلے گئے لیکن سلسلہ مزید بڑھ گیا حکومتی عہدیداران سے پوچھیں تو جواب ملتا ہے کہ محمد عمران جیسا ذہنی مریض اگر زینب کو دیکھ کر حیوان بن جائے تو حکومت بھلا کیا کر سکتی ہے۔ قصور میں زینب کے قتل کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ یہ ’ٹیسٹ کیس‘ ثابت ہوگا اور اس طرح کے جرائم کی روک تھام اور ان کے ارتکاب پر سخت سزاؤں کے حوالے سے قانون سازی کی جائے گی مگر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ دوسری جانب ڈارک ویب پر بچوں کی ویڈیوز بیچنے والے وہ نامعلوم افراد ہیں جو دنیا بھر سے ان ویڈیوز کے عوض پیسے دیتے ہیں ان کا پاکستان میں موجود ہونا انتہائی تشویشناک ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 79 فی صد ہیومین ٹریفکنگ کے شکار جنسی استیصال اور فحش نگاری کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اب ان نامعلوم حقائق کی کڑیاں جوڑنا ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے کوئی ناممکن کام نہیں غیر اخلاقی ویڈیوز ایک بڑی صنعت بن چکی ہے ۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے دنیا بھر میں فحش اور غیر اخلاقی مواد تک نوجوانوں کی رسائی آسان ہوگئی ہے پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی مرکزی ڈیٹابیس موجود نہیں ہے جو جنسی جرائم میں ملوث شخص کی نشاندہی کر سکے اور ان پر مسلسل نظر رکھ سکے بچوں میں جنسی تشدد روز بروز بڑھنے لگا ہے، بچوں کو اس حوالے سے آگاہی دینا بہت اہم ہے بظاہر لگ رہا ہے ہم اس معاشرے سے تعلق رکھتے جو واقعات ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے ہم بحیثیت معاشرہ اور ریاست پستی اور ذہنی گرواٹ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ریاست اور اس کے ماتحت اداروں کو سر جوڑ کے بیٹھنا چاہیے اور ان عوامل پہ توجہ دینی ہو گی جو اس کا باعث بن رہے ہیں۔