انسانی حقوق کا کوئی دن نہیں

521

چار ماہ سے قید و بند اور غیر انسانی پابندیوں میں جکڑے ہوئے کشمیریوں کے رہنما سید علی گیلانی نے دس دسمبر کو انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے عالمی دن کے موقع پر یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔ سید علی گیلانی کا کہنا ہے کہ اس روز احتجاج کا مقصد عالمی برادری کی توجہ کشمیر کی سنگین صورت حال کی طرف مبذول کرانا ہے۔ تنازعہ کشمیر حل کروانا اور بھارتی مظالم رکوانا اقوام متحدہ کی ذمے داری ہے۔ سید علی گیلانی تو ہر عنوان سیے کشمیریوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ شدید مصائب کے باوجود ان کے عزم میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن جس عالمی برادری کی توجہ وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کشمیریوں کے مصائب کا اصل سبب تو یہ عالمی برادری ہے۔ یہ عالمی برادری فلسطینیوں کے مصائب پر خاموش رہتی ہے۔ یہی عالمی برادری چینی مسلمانوں کے مصائب پر خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ منافقت کی انتہا یہ ہے کہ فلسطینیوں سے جن مسلمان ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں وہ فلسطینیوں سے یکجہتی کے بجائے اسرائیل سے دوستی کا دم بھر رہے ہیں۔ بلکہ سفارتی تعلقات بھی قائم کر رہے ہیں۔ کشمیریوں کا معاملہ صرف بھارت اور کشمیریوں کا ہرگز نہیں بلکہ یہ تو براہ راست پاکستان کا معاملہ ہے۔ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا لیکن یہ شہ رگ بھارت کے قبضے میں جانے کے باوجود پاکستانی حکمران اور فوج ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ صرف زبانی جمع خرچ ہو رہا ہے۔ دھمکیاں دی جارہی ہیں اور بھارت کے ساتھ خیرسگالی کے لیے ہر کام کیا جارہا ہے۔ بھارتی سرحدیں خلاف ورزیوں پر بھی ہلکی پھلکی کارروائیوں ورنہ ترانے اور نغمے تیار کر کے بھارت کو تباہ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق بری طرح پامال ہو رہے ہیں خصوصاً اس کا نشانہ منظم طور پر مسلمانوں کو بنایا جارہا ہے۔ چین، برما، کشمیر کے علاوہ بھارت بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گوشت کھانے کے الزام میں قتل کیا جاتا ہے۔ جانوروں کی طرح حملے کیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں بابری مسجد کے مقدمے کا نہایت متعصبانہ اور جانبدارانہ فیصلہ دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے، لیکن عالمی برادری کو ذرا بھی تکلیف نہیں ہوتی۔ کشمیریوں کی تعداد ایک کروڑ کے قریب ہے۔ بھارت بھر میں 30 کروڑ مسلمان ہیں، بنگلا دیش میں اسلام پسند مسلمان اور جماعت اسلامی نشانہ ہیں۔ برما میں اراکان کو قتل کیا جارہا ہے۔ شام میں غیر مسلم قوتیں اور دور دور سے آئی ہوئی افواج کی بمباری کا نتیجہ مسلمان کا قتل ہے۔ پورا مغرب اسلامو فوبیا کا شکار ہے لیکن عالمی برادری کو تکلیف ہوتی ہے تو پاکستان میں توہین رسالت کی ملزمہ کے لیے لال لال ایشیا کے نعرے لگاتے ہوئے سول سوسائٹی والوں کے ملک کے خلاف نعروں پر کارروائی پر تکلیف ہوتی ہے۔ جو طالب علم ہیں نہ سیاسی لوگ۔ اس بے حس عالمی برادری سے کشمیریوں کے انسانی حقوق کے لیے کسی قسم کی توقع رکھنا عبث ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا اب جبر کے نظام میں جکڑی جا چکی اور اس نظام میں کچھ خود ظلم کے عنوان گھڑ لیتے ہیں، خود ہی کچھ دن مقرر کر لیتے ہیں اور خود ہی کسی کو دہشت گرد قرار دے دیتے ہیں۔ ساری دنیا میں دہشت گردی کرنے والے امریکا کے پیچھے چلتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب دنیا میں انسانی حقوق نام کی کوئی چیز باقی نہیں اور جہاں تک مسلمانوں کے حقوق کا تعلق ہے تو یہ تو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے۔ سید علی گیلانی نے تو اپنے حصے کا کام کردیا لیکن اگر مسلمان حکمرانوں میں غیرت باقی ہے، سود اور حرام سے پرورش پانے والوں کے دلوں میں ایمان کی ذرا بھی رمق ہے تو ایک کروڑ کشمیریوں، ایک کروڑ چینی مسلمانوں، لاکھوں برمی مسلمانوں اور لاکھوں فلسطینیوں کے لیے مل کر آواز اٹھائیں۔ نام نہاد عالمی برادری کا ہر سطح پر مقاطعہ کریں۔ پھر تو کوئی دن منانا سود مند ہوگا ورنہ دنیا کے حالات تو یہ بتا رہے ہیں کہ انسانی حقوق کا کوئی دن وجود نہیں رکھتا۔