قاتلوں کو معاف کرنے میں عجلت

423

آج کل عدالتیں بڑی تیزی سے فیصلے کر رہی ہیں لیکن ان فیصلوں کے نتیجے میں قاتل بری ہو رہے ہیں۔ گزشتہ چند دن میں ایسے کئی قاتل بری کر دیے گئے۔ حال ہی میں دو سال پہلے ملیر کراچی میں 16 سالہ علینہ کے قاتل بری کر دیے گئے۔ اس بچی کو 5 دسمبر 2017ء میں علینہ کی بہن علوینہ نے اپنے منگیتر اور دو دوستوں کے ساتھ مل کر قتل کر دیا تھا۔ پولیس نے کچھ ہی دن میں اس قاتل ٹولے کو گرفتار کرلیا جس نے میڈیا کے سامنے قتل کا اعتراف بھی کرلیا۔ علوینہ، مظہر، احسن اور عباس کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا تاہم گزشتہ جمعہ کو ماڈل کورٹ شرقی نے 16 سالہ علینہ کے قاتلوں کو بری کردیا۔ وجہ یہ بتائی کہ مقتولہ اور قاتلہ کے باپ ندیم نے مجرموں کو معاف کر دیا۔ قاتل بہن علوینہ نے پہلے یہ ظاہر کیا تھا کہ علینہ ڈکیتی میں مزاحمت پر ماری گئی۔ اس نے خود کو بھی ’احتیاط سے‘ زخمی کرلیا تھا۔لواحقین نے بھی ڈکیتی ثابت کرنے کے لیے سونے کے زیورات، نقدی اور موبائل فون جانے کا دعویٰ بھی کیا تھا جس پر پولیس کو گمراہ کرنے اور جھوٹی گواہی پر الگ سے مقدمہ بنتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ انصاف میں تاخیر ناانصافی ہے لیکن یہ بھی تو انصاف نہیں کہ اعتراف جرم کرنے والے قاتل بھی چھوڑ دیے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ علینہ کا خون ناحق کس کھاتے میں گیا۔ وہ باپ بھی کیسا ظالم ہے جس نے اپنی قاتل بیٹی کو بچانے کے لیے مقتول بیٹی کا خون معاف کردیا۔ شریعت میں ورثاء کی طرف سے معاف کر دینے کی گنجائش ضرور ہے لیکن ایسے معاملات میں حکومت اور عدالت کی بھی ذمے داری ہے جو معافی کے بعد شروع ہوتی ہے۔ لیکن آج کل عدالتوں کی طرف سے قاتلوں کو چھوٹ دینے کا طریقہ عام ہو گیا ہے۔ ساہیوال میں سر عام چار افراد کو قتل کرنے والے بری ہو گئے جب کہ ثبوت بڑے واضح تھے۔ ایک معذور لڑکے صلاح الدین کے قاتل پولیس اہلکار بھی بری کردیے گئے تو پھر کیوں نہ چار سو سے زائد افراد کے قتل کے مجرم رائو انوار کو بھی بری کرکے عدالت اپنی جان چھڑائے۔ مدینہ جیسی ریاست میں یہ خوب ہے کہ قتل کرو اور معاف کروا لو۔ کیا ریاست کی کوئی ذمے داری نہیں؟