لاہور میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کا قتل

421

لاہور میں ہفتے کے روز افسوس ناک واقعے میں جماعت اسلامی کے تین کارکن شہید ہو گئے۔ ایک جانب حکومت پنجاب کی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان وزیراعلیٰ کو شیر شاہ سوری قرار دے رہے ہیں اور امن و امان کا یہ حال ہے کہ دن دہاڑے شہری قتل ہو رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کا سب سے بڑا قدم یہ ہے کہ نوٹس لے لیا اور رپورٹ طلب کرلی۔ اب تک طلب کی گئی رپورٹوں کا نتیجہ کون سا اچھا آیا اور انصاف کیا گیا ہے بلکہ ہر بڑی واردات کے ذمے داروں کو بالاخر بری کر دیا جاتا ہے۔ پنجاب میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ہر چند روز بعد قتل کی اسی قسم کی وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں۔ پنجاب میں قانون کی حکمرانی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی اور وزیراعظم اجلاسوں میں پنجاب حکومت کی تعریفیں کرتے ہیں۔ ایک رویہ یہ بھی ہے کہ جوں ہی حکومت پر تنقید کی جائے یہ لوگ اسے سازش قرار دینے لگتے ہیں۔ عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمے داری ہے۔ اگر سرعام تین افراد قتل ہو جائیں اور ان کے قاتل آزاد گھوم رہے ہوں تو پھر حکومت کس مرض کی دوا ہے۔ پولیس نے اسے ذاتی دشمنی کا شاخسانہ قرار دیا ہے لیکن پولیس ذاتی دشمنی کے نتیجے میں قتل کرنے والوں پر ہاتھ ڈالنے سے کیوں گریزاں ہے۔ یہ حکومت، پولیس، وزراء وغیرہ صرف رواں تبصرہ کرنے کے لیے ہیں۔ یہ بات تو ٹی وی اخبار وغیرہ سے سب کو معلوم ہو گئی ہے کہ یہ قتل کا واقع ہے۔ لیکن حکومتی اداروں نے کیا قدم اٹھایا۔ عوام کو تحفظ کون دے گا۔ اگر یہ قتل پی ٹی آئی کے کارکنوں کا ہو جاتا تو چند لمحوں میں آئی جی تک تبدیل کر دیا جاتا۔ ذرا سی بات پر ڈی پی او تبدیل کرنے والے بزدار نے تین قتل کی واردات پر محض رپورٹ طلب کی ہے۔ یہ لیپا پوتی ختم کر کے حکومت سخت ایکشن لے۔ اللہ شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحومین کو جوار رحمت میں جگہ دے۔