کیا ہم کشمیر کو بھولتے جارہے ہیں؟

472

کیا کشمیر اور اس میں بسنے والے ہمارے مظلوم کشمیری بھائی ہمارے دل و دماغ سے اُترتے جارہے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو بہت سے لوگوں کو پریشان کررہا ہے لیکن اس کا کوئی معقول جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا واضح اور دوٹوک جواب دینے سے سبھی کترا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کے خاتمے اور بھارت کی طرف سے اسے اپنے اندر ضم کرنے اور اسے انتظامی اعتبار سے کئی حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد کشمیریوں پر قیامت گزر رہی ہے۔ انہوں نے بھارت کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کردیا ہے وہ کشمیری لیڈر اور سیاستدان جو علی الاعلان بھارت کے حامی تھے اور بھارت کی سرپرستی میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے انہوں نے بھی بھارت کے اِن اقدامات کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور بھارت کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے بجائے قید اور نظر بندی قبول کرلی ہے۔ جب کہ سید علی گیلانی اور کُل جماعتی حریت کانفرنس کے دیگر قائدین تو بھارت کے تازہ اقدامات سے قبل ہی قید و نظربند تھے اور جیلوں میں ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہورہا تھا۔ اس صورتِ حال میں کشمیری عوام قائدین کے بغیر اپنے قائد خود تھے، انہوں نے کرفیو کی پابندیوں اور ذرائع ابلاغ کی بندش کے باوجود اپنے موقف میں ذرا سی لچک نہ آنے دی، وہ کرفیو کی پابندیاں توڑ کر سڑکوں پر نکلے اور پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے آزادی کے نعرے لگاتے رہے۔ 4 ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے نہ کرفیو کی پابندیاں ختم ہوئیں نہ کشمیری عوام کی مزاحمت میں کوئی کمی آئی ہے، موت کا خوف ان کے دلوں سے کب کا نکل چکا ہے، وہ بھارت سے آزادی کے لیے ہر قیمت چکانے کو تیار ہیں اور عملاً یہ قیمت چکا بھی رہے ہیں۔ بھارت نہایت سفاکی سے کشمیری عوام کی مزاحمت کو کچلنے کی پوری کوشش کررہا ہے، اس نے مقبوضہ علاقے میں اپنی فوجی طاقت میں غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو دبانے اور اسے ختم کرنے کے لیے بری، بحری اور فضائی افواج کے خصوصی دستے تعینات کیے گئے ہیں جو مشترکہ فوجی آپریشن میں حصہ لیں گے۔ اس بات کا بھی کھلم کھلا اعلان کیا گیا ہے کہ کشمیری خواتین کی آبرو ریزی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا اور اس عمل میں تیزی لائی جائے گی۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلم آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے بھی تیزی سے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ تمام ریاستی زمینیں ریٹائرڈ ہندو فوجیوں اور بھارت کے بااثر ہندوئوں کو الاٹ کی جارہی ہیں، جب کہ مقبوضہ فلسطین میں یہودی بستیوں کی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں بھی ہندو بستیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے پہلے مرحلے میں کشمیری پنڈتوں کو آباد کیا جائے گا اس کے بعد بھارت کے عام ہندوئوں کو بسایا جائے گا۔ بھارت چاہتا ہے کہ صرف ایک سال کے اندر اندر مقبوضہ علاقے میں مسلم آبادی کا تناسب بدل دیا جائے اور مسلمان اکثریت ختم ہونے کے بعد اس پر مسلمانوں کا کوئی دعویٰ باقی نہ رہے۔
یہ ہے مقبوضہ کشمیر کا موجودہ اور مستقبل کا منظرنامہ جس سے نمٹنے اور وقوع پزیر ہونے سے روکنے کے لیے پاکستان نے کیا کیا ہے اور اسے کیا کرنا چاہیے، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کو بھولتے جارہے ہیں اور ہمارے پاس ان کے لیے زبانی ہمدردی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ تمام سوالات گہرے غور و فکر اور حقیقت پسندانہ تجزیے کے محتاج ہیں۔ سب سے پہلے ہم پاکستان کی داخلی سیاست پر ایک نظر ڈالتے ہیں، ایک زمانہ تھا جب مسئلہ کشمیر سیاسی جماعتوں کا بنیادی موضوع ہوا کرتا تھا، اس کے ذریعے وہ عوام میں اپنی مقبولیت کا اندازہ لگاتی تھیں۔ اب جماعت اسلامی کے سوا کوئی اور سیاسی جماعت اس موضوع پر بولنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو وہ ابتدا ہی سے کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اس نے اپنے سیکڑوں نوجوان اس تحریک کی نذر کیے ہیں جب کہ کسی اور سیاسی جماعت کا دامن اس قربانی سے خالی ہے۔ اِن جماعتوں نے کشمیری عوام کی حمایت میں کچھ بھی کہنا گوارا نہ کیا بلکہ جب مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی آگ شدت سے بھڑک رہی تھی اور پوری قوم اس طرح متوجہ تھی تو مولانا فضل الرحمن نے ’’آزادی مارچ‘‘ شروع کرکے اس توجہ کا رُخ موڑنے کی دانستہ کوشش کی ان کے مخالفین تو یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ مولانا نے یہ ڈراما جمعیت علمائے ہند کے اشارے پر پاکستان میں رچایا جو کشمیر کے ایشو پر کھلم کھلا مودی حکومت کے اقدامات کی حمایت کررہی ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ مولانا صاحب نے کسی کے اشارے پر ایسا کیا ہوگا لیکن بہرکیف یہ بے وقف کی راگنی تھی جس سے کشمیر کاز کو بہت نقصان پہنچا اور پاکستانی قوم مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ اس یک جہتی کا مظاہرہ نہ کرسکی جو اسے کرنا چاہیے تھا۔
اب آئیے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ درد انگیز صورتِ حال پر عمران حکومت کے طرزِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدا میں یہ طرز عمل نہایت حوصلہ افزا تھا۔ بھارت نے جونہی مقبوضہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنے اور اس کے حصے بخرے کرنے کے اقدامات کیے پاکستان نے فوری طور پر اسے مسترد کردیا اور اپنے اس دیرینہ موقف کو دہرایا کہ ریاست جموں و کشمیر بدستور ایک متنازع علاقہ ہے جس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے ذریعے ہی ممکن ہے، پھر پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس ہوا جس میں پاکستان کے موقف کی توثیق کی گئی۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور جدید ذرائع ابلاغ پر پابندیاں لگا کر کشمیری عوام کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع کردیا تو اس پر بھی عمران حکومت نے فوری ردعمل کا اظہار کیا اور وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کہا گیا کہ ہم کشمیری عوام کو بھارت کے چنگل سے نکالنے کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ فوج کے ترجمان نے کشمیریوں کے دفاع میں آخری فوجی آخری گولی اور آخری سانس تک لڑنے کی بات کی۔ بلاشبہ ان بیانات سے کشمیریوں کا حوصلہ بلند ہوا اور وہ بھارت کے مقابلے پوری قوت سے ڈٹ گئے۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی کشمیریوں کا مقدمہ نہایت جرأت سے پیش کیا اور اسے عالمی سطح پر پزیرائی حاصل ہوئی۔ یہاں تک تو ساری باتیں قابل تعریف تھیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عمران خان کی جنرل اسمبلی سے واپسی کے بعد ہی پسپائی کا عمل شروع ہوگیا، عمران خان نے اسلام آباد ائر پورٹ پر استقبالی ہجوم اور بعد میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ مقبوضہ کشمیر جا کر جہاد کرنے کی باتیں کررہے ہیں وہ پاکستان اور کشمیریوں کے دشمن ہیں، سادہ لفظوں میں ان کا مطلب یہ تھا کہ کشمیریوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، حالاں کہ انہیں زبانی حمایت سے زیادہ عملی مدد کی ضرورت تھی لیکن عمران خان اس خوف میں مبتلا تھے کہ کہیں عملی مدد کی صورت میں بھارت پاکستان پر حملہ نہ کردے۔ بھارت کی ناراضی کے ڈر سے انہوں نے بھارت کے خلاف کسی پابندی کی بھی حمایت نہیں کی اور اب سید علی گیلانی کی یہ اپیل بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی ہے کہ پاکستان بھارت کے تمام دوطرفہ معاہدے منسوخ کردے اس کے برعکس سکھوں کے لیے کرتارپور بارڈر کھولنے میں بہت جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے جو تقریر کی اس میں بھارت سے دوستی کی خواہش چھلکی پڑ رہی تھی اور اس میں کشمیر کا ذکر سرسری انداز میں کیا گیا تھا۔ اب وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے بھارت کو دنیا میں اتنا بدنام کردیا ہے کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ یہ محض ان کی خوش فہمی ہے ورنہ بھارت پوری دنیا میں دندناتا پھر رہا ہے اور عالمی برادری نے مقبوضہ کشمیر میں اس کے تمام اقدامات کو قبول کرلیا ہے۔
اندریں معاملات کیا یہ سوال مناسب نہیں کہ کیا ہم کشمیر کی دانستہ بھولتے جارہے ہیں؟۔