طلبہ یونینز کی بحالی، چار عشروں کا قصہ

388

 

 

ملکی منظر پر ’’جب لال لال لہرائے گا تو ہوش ٹھکانے آئے گا‘‘۔ کے نعروں نے ایک پوری نسل کو چالیس برس پیچھے پہنچا دیا۔ جب ملک کی سیاست اور اہل دانش اور تعلیمی اداروں میں بایاں بازو بہت فعال تھا۔ نظریاتی مباحث اور مجالس قومی اور سیاسی شعور کو بڑھانے کا باعث ہوتی تھیں۔ تعلیمی اداروں کی دیواروں پر لکھی تحریریں اور پوسٹر پڑھ کر ہی ایک نووارد کو نظریاتی دنیا اور اس میں جاری آویزش کا بڑی حد تک اندازہ ہوجاتا تھا۔ رنگ برنگے بینرز اور اسٹکرز کی صورت ایک رونق اور زندگی چہار سو دکھائی دیتی تھی۔ تعلیمی اداروں کی کینٹینوں میں نظریاتی مباحثے چائے کی پیالی میں طوفان ثابت ہوتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ سوویت یونین زوال کا شکار ہوا اور سرخ کے نعرے متروک ہوتے چلے گئے۔ بائیں بازو نے توتا چشمی کی انتہا کرتے ہوئے سوویت یونین کا صفحہ ہی اپنی کتاب زیست سے پھاڑ کر پھینک دیا اور ڈالروں کی چکا چوند میں گم ہوگیا۔ این جی اوز کے نام پر یہ طبقہ سرمایہ داروں کی ایک نئی کلاس کا حصہ اور خوشہ چیں بن گیا۔ اس اہم طبقے کے یوں منظر سے غائب ہونے نے ملکی منظر کو بے رنگ اور بدمزہ بنادیا۔ تین عشرے اسی بے کیف ماحول کی نذر ہوگئے۔ اس روکھے پھیکے ماحول میں بائیں بازو کو ’’مس‘‘ بہت کیا گیا کیونکہ بائیں بازو اور لال لال کے نعروں کے ختم ہوجانے نے سیاست سے نظریات کا عنصر بھی معدوم کردیا اور مس کرنے والوں میں ان کے نظریاتی مخالفین سب سے زیادہ شامل تھے جن کو مقابلے کا چیلنج ہی درپیش نہ رہا۔ اب یہ بایاں بازو نئے نعروں کے ساتھ ایک بار پھر پاکستان کی قومی زندگی کے کواڑ پر دستک دے رہا ہے اور اس پہلی دستک کا نام طلبہ یونین کی بحالی کا پرکشش مطالبہ ہے جس کا بھرپور مظاہرہ لاہور میں یکجہتی مارچ میں کیا گیا۔ اس سرگرمی پر کسی سنجیدہ موضوع سے زیادہ تھیٹر کا سا رنگ غالب رہا حالانکہ ملک اور اس کے مسائل تھیٹر کے انداز میں حل نہیں ہو سکتے۔ نہ ملک میں خدا نخواستہ آمریت کی سیاہ چادر تنی ہے جہاں اپنی بات کھلے انداز سے کرنا مشکل ہو اور جذبات کے اظہار کے لیے تھیٹر کے ناز وانداز کا سہارا لیا جائے۔
ملک میں لال لال کی جو لہر اُٹھانے کی کوشش ہو رہی ہے اگر یہ خالص طلبہ تحریک اور بائیں بازو کے معدوم اور حلقہ بگوشِ امریکا ہوجانے کے بعد ماحول اور منظر میں پیدا ہونے والے نظریاتی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے تو اس کا خیرمقدم ہوناچاہیے۔ تنوع اور تغیر کائنات کا حسن اور عین تقاضائے فطرت ہے۔ تنوع کے بغیر دنیا انسانوں کے بجائے روبوٹس کا معاشرہ بن جاتی ہے۔ لال لال کے خلا کو ڈالر زدہ این جی اوزنے پُر کیا اور یوں یہ خلا کے بھرنے کو ایک اچھا اور بہتر متبادل نہ بن سکا۔ اگر لال لال کو کچھ سیاسی، لسانی، نسلی اور لبرل عناصر نے اپنی سیاسی بقا اور سماج میں اپنی باعزت واپسی کے لیے استعمال کیا جس کا مظاہرہ لاہور مارچ میں لگنے والے بعض نعروں اور تقریروں سے ہورہا تھا تو تبدیلی کی اس لہر کا اسقاط برپا ہونے سے پہلے ہوجانا یقینی ہے کیونکہ تحریک کے آغاز کا یہ ڈھب معاشرے میں کشمکش کو جنم دے گا اور ردعمل کی قوتیں اسے پہلے ہی مرحلے میں چاٹ کھائیں گی کیونکہ ہئیت مقتدرہ یہ جان چکی ہے کہ یہ ملک دوبار ہ کسی ’’الطاف حسین‘‘ کے ظہور، ایجاد وسرپرستی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
طلبہ کی انجمن سازی ایک سیدھا سادہ معاملہ ہے جو ایک تسلسل کے ساتھ ساڑھے تین عشرے سے جاری ہے۔ 1984میں جنرل ضیاء الحق کے تعلیمی امور کے وزیر اور مشیر خاص ڈاکٹر افضل نامی ایک شخصیت تھی۔ نجانے ڈاکٹر افضل نے جنرل ضیاء الحق کے کان میں کیا پھونکا کہ بیٹھے بٹھائے انہیں طلبہ کی یونین سازی کے حق پر پابندی عائد کرنا پڑی۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے لیے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے جیسا ثابت ہوا۔ اسلامی
جمعیت طلبہ نے اس پابندی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ بالخصوص بی بی سی نے طلبہ تحریک کی بھرپور کوریج کی۔ کئی ماہ تک روزانہ ملک کے تعلیمی اداروں سے ’’ظلم کی انتہا جنرل ضیاء جنرل ضیاء‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے طلبہ کے جلوس نکلتے رہے اور مارشل لا حکام کے ساتھ ان کی مڈبھیڑ ہوتی۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے بعد یہ ضیاء الحق کے اقتدار کے لیے سڑکوں پر کھڑا ہونے والا ایک اور چیلنج ثابت ہوا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد اقتدار کے عروج میں تعلیمی اداروں میں طلبہ کی انجمن سازی پر یہ کہہ کر پابندی عائد کی گئی تھی کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کی سرگرمیاں تشدد کے فروغ کا باعث بن رہی ہیں۔ اس پابندی کے خلاف ملک بھر میں پرتشدد احتجاجی تحریک چلائی گئی تھی یہاں تک کہ پشاور میں جنرل ضیاء کے جلسے کو اُلٹنے کی کوشش بھی ہوئی۔ پنجاب کے تھانے اور جیلیں طلبہ سے بھر گئی تھیں۔ جنرل ضیاء نے مارشل لا اور ڈکٹیٹر کی عین نفسیات کے مطابق ملکی فضا کو غیر سیاسی بنانے کے لیے طلبہ کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی تھی۔ اس کا مقصد عوام میں سیاسی شعور کے سفر کے آگے رکاوٹ کھڑی کرنا تھا۔ آمروں کو ملک میں قبرستان جیسی خاموشی بھاتی ہے۔ انہیں گونگے اور بہروں پر حکمرانی کا مزہ آتا ہے۔ اس لیے وہ اچھے خاصے بولتے اور متحرک معاشرے کو زندہ لاشوں کا قبرستان بنا ڈالتے ہیں۔
طلبہ سیاست پر پابندی نے ملک کو ڈی پولٹیسائز کرنے اور نوجوان نسل کو ملکی اور قومی معاملات سے لاتعلق اور بیگانہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ سیاسی جماعتوں کو طلبہ سے فعال، تجربہ کار اور متحرک قیادت اور تازہ خون ملنا بند ہوگیا۔ سیاسی جماعتوں پر جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور نسل در نسل چلے آنے والے کارکنوں کا غلبہ ہوگیا۔ اس عمل نے سیاسی جماعتوں کا مزاج اور پہچان بھی بری طرح متاثر کیا۔ جنرل ضیاء الحق طلبہ کے یونین سازی کے حق پر پابندی تو لگا چکے مگر وہ تنظیموں پر پابندی عائد نہ کرسکے کیونکہ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں۔ پابندی کے بعد طلبہ تنظیموں کے درمیان زیادہ خوں ریز تصادم ہوئے جن میں معصوم طلبہ اور والدین کے سہارے جاں سے گزرتے گئے۔ پنجاب میں حکمران طبقے نے قبضہ گروپوں اور بھتا مافیا کو طلبہ کے نام پر منظم کیا اور یوں اسی کی دہائی کے وسط میں بہت سے طلبہ ان مافیاز کے ہاتھوں قتل ہوئے، یونینوں کی غیر موجودگی میں تعلیمی اداروں پر قبضے کی جنگ شروع ہوگئی۔ یونینز کے خاتمے کے بعد تعلیمی اداروں کی انتظامیہ مختارِ کل بن گئی اور یوں تعلیمی اداروں میں طالبات کو نمبروں کے نام پر بلیک میل کرنے کا کلچر رواج پاگیا۔ اب جبکہ حکومت نے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے یونین سازی کے حق کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو اس سے پہلے ایک قابل عمل ضابطہ اخلاق کی تیاری ناگزیر ہے۔ 1984سے آج تک پنتیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصے میں عالمی اور علاقائی سیاست کے رنگ اور رخ بدل چکے ہیں۔ معاشرے کی ضروریات اور تقاضے بدل چکے ہیں۔ رسوم ورواج میں حیرت انگیز تبدیل آچکی ہے۔ پنتیس برسوں نے ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ تعلیمی اداروں کا ماحول اور والدین اور طلبہ کی نفسیات، تعلیمی نظام سب کچھ ایک نئی ڈگر پر چل رہا ہے۔ نظریاتی سیاست دم توڑ چکی ہے۔ سرخ وسبز کے نعروں کی شدت کم ہوچکی ہے۔ اس لیے نئے تقاضوں کو مدنظررکھتے ہوئے ضابطہ اخلاق تیار ہونا چاہیے۔ ایسا ضابطہ جس میں تشدد کو سر اُٹھانے اور تنظیموں کو نسلی، مذہبی اور لسانی تعصب کے لیے استعمال کرنے کی گنجائش ہی نہ ہو۔ تعلیمی اداروں اور ہاسٹلوں پر قبضوں کا رواج دوبارہ فروغ نہ پاسکے۔ دنیا کے تمام بڑے تعلیمی اداروں میں یونینوں کے طریقہ ٔ کار کو اس معاملے میں پیش نظر رکھنا چاہیے۔ طلبہ انجمنوں کی بحالی کی صورت میں طلبہ قیادت پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوگی کہ وہ ضابطہ اخلاق کی سختی سے پابندی کریں تاکہ ریاست کو دوبارہ یہ حق سلب ہونے کا موقع فراہم نہ کریں۔