قطر کی طارق بن زیاد چھاؤنی

396

 

مظہر اقبال

تقریباً کوئی دو برس قبل ریاست قطر کے ہمسایہ ممالک نے قطر کا ہر لحاظ سے بائیکاٹ کردیا۔ عرب ممالک کی اس کارروائی کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ امریکا کے عرب دوست ممالک قطر کی دن دگنی اور رات چگنی ترقی سے خاصے نالاں تھے۔ قطر کو دنیا کی سب سے امیر ریاست کا عزاز بھی حاصل رہا ہے جو اس سے پہلے لکسمبرگ کے پاس تھا۔ دنیا کی بہترین ائر لائن قطر ائرویز کا تعلق بھی قطر سے ہے۔ قطر کو جب سے گیس کی مد میں آمدنی ہوئی تو اس نے فلاحی ریاست کا ماڈل اپنایا۔ قطر نے اپنے ہی لوگوں پر سرمایہ لگانا شروع کردیا۔ غیر ملکیوں اور خصوصاً غیر ملکی تعلیمی اداروں کو خوش آمدید کہنا قطر کے لیے خوش قسمتی کا باعث بنا۔ قطر میں اس وقت سو فی صد شرح خواندگی ہے۔ قطر کا پڑھا لکھا نوجوان طبقہ مرد و عورت INNOVATION کی طرف مائل ہوا کبھی قطر سائنس فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی جارہی ہے تو کہیں فٹ بال کلب بنائے جارہے تھے قطر کی اس ترقی نے اس کے لیے ایشین گیمز کی راہ ہموار کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ قطر نے روایتی فوجی مہارت کو بھی قائم رکھا۔ چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود ایک طاقتور ائر فورس اس کا حصہ رہی۔
امیر قطر نے تقریباً تمام ملکوں کے ساتھ دوستی کی پالیسی اپنائے رکھی قطر مڈل ایسٹ کا واحد ملک ہے جس نے اسرائیل کی کاروائیوں پر احتجاج کیا۔ قطر نے فلسطینی بھائیوں کی دل کھول کر امداد کی حتی کہ قطر میں موجود فلسطنیوںکو اسرائیل کے خلاف احتجاج کا حق بھی دیا نشریات میں بھی قطر کی پالیسی خاصی نرم رہی یہی وجہ ہے کہ وہاں سے الجزیرہ ٹی وی کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے الجزیرہ ٹی وی دنیا کا مقبول ترین چینل بن گیا یوں قطر میں صحافت کا ایک نیا باب کھل گیا قطر اپنی یہ کامیابیاں سمیٹ ہی رہا تھا کہ فٹبال کے ورلڈ کپ کا قطر میں کھیلے جانے کا چرچا ہوگیا۔ تاہم یہ بات قطر کے ہمسایہ ممالک کے لیے ناقابل ہضم ثابت ہوئی شروع میں تو سب نے یہی سمجھا کہ قطر محض ایک امیدوار ہے اتنی بڑی میزبانی قطر کو نہیں مل سکتی۔ قطر نے ورلڈ کپ کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے خوب محنت کرنا شروع کردی۔ ویزے کا حصول آسان بنادیا۔ اپنے ٹرانسپورٹ سسٹم کو سوگنا بڑھا دیا بین الاقوامی معترضین کے اعتراضات کو دیکھتے ہوئے قطر نے کفیل کے نظام کو تبدیل کردیا جسے ’’جدید غلامی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ان اقدامات کے نتیجہ میں قطر کو 2022 کے ورلڈ کپ کی میزبانی مل گئی۔ قطر کے ہمسایہ ممالک نے پرانے سرحدی معاملات کی بنیاد اور امریکا بہادر کی تھپکی پر تمام تعلقات منقطع کردیے ان ممالک نے اپنی سرحدیں بند کردیں اگلے ہی دن قطر میں دودھ، سبزی اور کھانے پینے کی دیگر اشیا مارکیٹ سے غائب ہوگئیں۔ قطر کو یمن، عرب امارت، سعودیہ اور کئی دیگر ممالک سے درآمدات ہوتی تھیں۔ اچانک سب کچھ بند ہوجانے سے قطر میں زندگی مفلوج ہونے کا خطرہ تھا۔
اس سے بڑا خطرہ امریکا اور ا س کے اتحادیوں کی کاروائی کا تھا۔ تاہم قطری حکومت کی دور اندیشی کی وجہ سے ترکی کی فوج موقع پر پہنچ گئی۔ اور اس کے ساتھ ہی اشیائے خور ونوش کی فراہمی کو بھی بحال کردیا گیا۔ اس موقع پر پاکستان نے قطر کا خوب ساتھ دیا ہنگامی بنیادوں پر اشیائے خور ونوش کے کنٹینر بھجوائے گئے۔ اس موقع پر قطر نے انتہائی سمجھداری کا مظاہرہ کیا خارجیوں کو قطر چھوڑنے سے روکا اور بینکوں کو بیرون ملک رقم منتقلی سے روکا۔ یہ وہ غلطی ہے جو پاکستان کی اس حکومت سے ہوئی ڈالر کشتیوں سے باہر جانے لگا تو بھی لوگوں کی تجوریوں میں، بہرحال قطر میں قانون بہت سخت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پر راہدای پھیلی اور نہ ہی کرنسی کا بحران پیدا ہوا۔ ان بحرانوں سے نکلنے کے بعد قطر نے دوست ممالک ترکی اور پاکستان کے ساتھ فوجی معاہدوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا حال ہی میں ترکی کے صدر طیب اردوان نے دوحہ میں طارق بن زیاد چھاؤنی کا سنگ بنیاد رکھا، اطلاعات ہیں کہ پاکستانی فوجی دستے قطر کے ورلڈ کپ میں سیکورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔
یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ اب مسلم ممالک نے جنگی پیچ و خم و فوجی زیروبم کو سمجھنا شروع کردیا ہے۔ لیبیا، عراق اور شام کے معاملات دیکھتے ہوئے مسلم ممالک کا متحد ہونا نیک شگون ہے۔ چھاؤنیاں تو پہلے بھی بنتی رہی ہیں مگر اس مرتبہ نام بہت اہم ہے۔ لفظ طارق بن زیاد امت مسلمہ کے لیے ایک استعارہ ہے۔ جبل طارق کو یورپین آج بھی جانتے ہیں۔ یورپ پہنچنے والے جرنیل طارق بن زیاد تھے اپنی کشتیوں کو آگ لگانے والے اور فتح کا یقین رکھنے والے طارق بن زیادہ تھے، نام طارق بن زیادہ اپنے اندر گوناگوں خوبیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ جرأت، بہادری، یقین اور جذبہ یقین اور جذبہ یہ سب اجزا نام طارق بن زیادہ کے اندر ہیں۔ قطر کی چھاؤنی طارق بن زیادہ امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے ایک امید کی کرن ہے مسلم ممالک کو اب نشتند، گفتند برخاستند سے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ چاہے افغانستان ہو یا شام مسلم ممالک اب اس بات کا اعادہ کرلیں کہ پہلے والی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔ طیب اردوان نے طارق بن زیادہ چھاؤنی کے دورے کے موقع پر واشگاف الفاظ میں کہا کہ کسی خلیجی ملک کو ترک فوج کی موجودگی پر پریشانی نہیں ہونی چاہیے دراصل اس صدی میں بڑے طاقتور ملکوں کی چھاؤنیاں چھوٹے ملکوں کو لڑانے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں بلکہ ان کے حصے بخرے ہوتے رہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک بڑے مسلمان ملک کی فوج کی موجودگی میں مسلمانوں کو تحفظ کا احساس ہونا چاہیے تھا۔ دیر آید درست آید۔ قطر کا یہ اقدام مغرب کے لیے ایک اشارہ ہے اب لیبیا اور کویت والے حالات نہیں رہے۔ امید واثق ہے کہ مسلم حکمران طارق بن زیاد چھاؤنی اور اس سے وابستہ تاریخی پس منظر کو سامنے رکھیں گے۔ مسلم حکومتوں کو محکومیت سے باہر نکلنا ہوگا اور جہاں جہاں ظلم ہے وہاں اللہ کی حاکمیت قائم کرنا ہوگی۔