وفاق اور سندھ، الزامات کا تبادلہ

261

وزیر اعظم عمران خان نیازی نے کہا ہے سندھ میں گورنس خراب ہی نہیں ناکام ہے۔ کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ بھی کرتے رہے ہیں۔ مایوسی کی بات یہ ہے کہ نہ صرف وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ دونوں ہی درست کہہ رہے ہیں بلکہ دونوں ہی اپنے اپنے دائرہ اختیار میں معاملات کو درست کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے پر راضی نہیں ہیں ۔ اس سے ان دونوں کا تو کچھ نہیں بگڑا مگر ان دونوں کی خراب گورنس نے سندھ اور پاکستان دونوں کا بیڑا غرق کردیا ہے ۔سید مراد علی شاہ کی جماعت پیپلزپارٹی سندھ میں سب سے طویل حکومت بنانے کا ریکارڈ رکھتی ہے ۔ سید مراد علی شاہ بھی کئی برسوں سے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں مگر سب سے زیادہ کرپشن اور برے حالات سندھ ہی کے ہیں ۔ سندھ کے گاؤں کئی صدیوں پرانے علاقوں کا منظر پیش کرتے ہیں اور شہر گاؤں کا ۔بھٹو کے آبائی شہر لاڑکانہ کا برا حال ہے تو آصف زرداری کا اپنا شہر نوابشاہ بھی کچھ اچھے حالات میں نہیں ہے ۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا علاقہ دادو بھی ترقی اور صفائی ستھرائی کے لحاظ سے کسی شمار قطار میں نہیں ہے ۔ کراچی اور حیدرآباد کا تو ذکر ہی کیا کہ یہ کچرے تلے دفن ہوچکے ہیں اور جگہ جگہ سیوریج کے بہتے پانی نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے ۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اس امر کا خصوصی التزام رہا ہے کہ صوبے میں تعلیم عام نہ ہونے پائے ۔ ایک تو اسکول قائم ہی نہیں کیے جاتے اور اگر کہیں ان کا وجود ہے بھی تو انہیں اوطاقوں یا جانوروں کے اصطبل میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ ان اسکولوں کے لیے بھرتی اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتے ہیں یا پھر وہ مقامی وڈیروں کے ذاتی خدمتگار ہیں ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال وفاقی حکومت کی بھی ہے ۔ تعلیم اور صحت وفاقی حکومت کی ترجیحات میں سب سے نچلے درجے پر ہیں ۔ وفاقی حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح تاریخ میں بلند ترین ہے تو مہنگائی نے بھی سابقہ سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔ عمران خان کی وجہ شہرت ہی یہ ہوگئی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں ان کا عمل اس کے قطعی برعکس ہوتا ہے ۔ انہوں نے گزشتہ سردیوں میں بے گھر افراد کے لیے عارضی رہائش گاہیں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کی میڈیا مہم بھی چلائی گئی تھی مگر یہ رہائش گاہیں کہاں گئیں اور اس کے لیے مختص کیا جانے والا بجٹ کون کھا گیا ، کسی کو علم نہیں ۔ اسی طرح کچھ عرصہ پہلے عمران خان نیازی نے لنگر خانے قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور پہلے لنگر خانے میںافتتاحی لنچ بھی کیا تھا ۔ پورے ملک میں لنگر خانے تو کیا قائم ہوتے ، پہلا لنگر خانہ ہی کہیں غائب ہوگیا ۔ عمران خان نیازی کی داخلہ پالیسی ، معاشی پالیسی، خارجہ پالیسی ، دفاعی پالیسی ساری ہی پالیسیاں انتہائی مایوس کن ثابت ہوئی ہیں۔ سقوط کشمیرکا سانحہ عمران خان نیازی ہی کے دور میں ہوا ۔سقوط کشمیر پر عمران خان نیازی اور قومی سلامتی کے ادارے تو ہوسکتا ہے ایک صفحے پر ہوں مگر عوام قطعی طور پر اس صفحے پر نہیں ہیں ۔ سقوط کشمیر پر عوام میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے ۔ سانحے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا کہ سقوط کشمیر پر پاکستان کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی ۔ اس طرح سے بھارت کو اس جنگ میں واک اوور دے دیا گیا ۔ پاکستان کی خاموش رضامندی ہی سے بھارت کی یہ ہمت ہوئی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم اور جبر چاہتا ہے ، کر گزرتا ہے ۔ پاکستان کے حکمرانوں کو مردہ پا کر بھارت کواب اتنی ہمت ہوگئی ہے کہ اس چیرہ دستی کا شکار مقبوضہ کشمیر کے بعد پورے بھارت کے مسلمان ہورہے ہیں ۔عمران خان نیازی کی انتخابی مہم کا بنیادی نعرہ کرپشن کا خاتمہ تھا مگر بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کی کرپشن میں مدد نے انہیں ہر طرح سے ایکسپوز کردیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کسی بھی سطح پر موجود نہیں ہے ۔ انتخابات ایک رسم کے طور پر تو ہوتے رہے ہیں مگر ایک مرتبہ بھی حقیقی نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ اب تو انتخابی کھیل اتنا عریاں ہوگیا ہے کہ عمران خان نیازی کو منتخب حکومت کے بجائے سلیکٹڈ حکومت کہا جاتاہے ۔ اس پھبتی پر سلیکٹرز بھی برا ماننے کے بجائے زیر لب مسکراتے ہیں ۔ عوام بھی موجودہ صورتحال پر مایوسی کا شکار ہورہے ہیں جو حد در جہ خطرناک ہے ۔ مایوسی کا مطلب ہی یہ ہے کہ عوام انتہائی اقدام پر مجبور ہوکر قانون کو ہاتھ میں لے سکتے ہیں ۔ عوام کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کا مطلب انارکی ہے اور یہ کہیں سے بھی قومی مفاد میں نہیں ہے ۔ عمران خان نیازی ہوں ، سید مراد علی شاہ یا کسی اور صوبائی حکومت کے سربراہ ، ان سے تو اب کسی بھی قسم کی توقع عبث ہے ۔ بہتر ہوگا کہ سلیکٹرز ہی حکمرانوں کے بجائے عوام کے ساتھ ایک صفحے پر آجائیں ۔ یہی ملک کے لیے بھی بہتر ہے اور بقیہ سب عناصر کے لیے بھی ۔ عمران خان سندھ حکومت کے خلاف خوب گرجے، برسے ہیں اور اسے نا کام قرار دیا ہے۔ سندھ کی اتحادی جماعتوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ سب سے زیادہ کرپشن سندھ میں ہوئی، ڈیل ہو گی نہ ڈھیل، کوئی نہیں بچے گا۔ جواب میں سندھ سے بھی بیان بازی شروع ہو گئی ہے بلاول نے طویل خطاب کیا اورمراد علی شاہ نے پنجاب کے شیرشاہ سوری اور وسیم اکرم پلس کی خبر لی کہ انہوں نے پنجاب میں کیا کیا؟ خیبرپختونخوا میں طویل عرصے سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے لیکن ’’جنگلہ بس، چل کر ہی نہیں دے رہی۔ یہ قوالیاں کئی دن جاری رہیں گی‘‘۔