ڈیزل، پیٹرول پر ٹیکس کا سرکاری اعتراف

302

وفاقی حکومت نے باضابطہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ ڈیزل پر تقریبا 46 روپے فی لیٹر اور پٹرول پر 35 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حکومت نے سرکاری طور پر اعتراف کیا ہے کہ وہ کتنا ٹیکس پٹرولیم مصنوعات پر وصول کرتی ہے ۔ محض اتنا ہی نہیں ہے بلکہ پٹرولیم کمپنیاں جس طرح سے لوٹ مار کررہی ہیں ، اس کا کہیں پر کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ بہتر ہوتا کہ حکومت سیاہ و سفید میں پارلیمنٹ کو بتاتی کہ کس قیمت پر تیل کی خریداری کی گئی اور ایکس ریفائنری تیل کس قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے ۔ یہ عوام کا حق ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ کب کونسا کنسائنمنٹ کس سے کس قیمت پر خریدا گیا اور کس ریفائنری نے کس قیمت پر یہ تیل فروخت کیا تاکہ معلوم ہو کہ یہ تیل کمپنیاں کتنی زاید قیمت ان سے وصول کررہی ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ جیسے ہی پٹرول کی قیمت کا بریک اپ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے ، حکومت آئیں ،بائیں،شائیں کرنے لگتی ہے ۔ یہ محض پٹرول فروخت کرنے والی کمپنیوں ہی پر منحصر نہیں بلکہ بجلی پیدا کرنے اور گیس فراہم کرنے والی کمپنیوں کی بھی یہی صورتحال ہے ۔ یہ ساری کمپنیاں ہر ماہ عوام سے اربوں روپے زاید سمیٹ لیتی ہیں اور حکومت ہے کہ بجائے ان کمپنیوں کی گوشمالی کرے ، الٹا ان کی پردہ پوشی کچھ اس تندہی اور چابکدستی سے کرتی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے حکومت عوام کے بجائے ان کمپنیوں کی نمائندہ ہے ۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ عمران خان نیازی نے ایسی ہی کمپنیوں پر واجب الادا ٹیکس کی رقم خاموشی سے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے معاف کردی تھی ۔ یہ وہ ٹیکس نہیں تھا جو ان کمپنیوں کے منافع پر واجب الادا تھا بلکہ یہ وہ ٹیکس تھا جو ان کمپنیوں نے اپنی مصنوعات پر عاید سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کی مد میںاپنے صارفین سے وصول کیا تھا اور اسے حکومت کے کھاتے میں جمع کروایا جانا تھا ۔ ان کمپنیوں نے بطور امانتدار حکومت کی طرف سے مذکورہ ٹیکس عوام سے وصول کیے تھے مگر حکومت کے کھاتے میں جمع کروانے کے بجائے خود ڈکار گئیں ۔ ان کی مالیت تقریبا 900 ارب روپے تھی جو عمران خان نیازی نے محض چند سو ارب روپے لے کر باقی معاف کردی ۔یہ سرکاری خزانے پر سیدھا سادا ڈاکا تھا مگر اس کا کہیں پر بھی کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ عمران خان نیازی اور ان کی ٹیم روز ایک ہی قوالی گاتے ہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دے رہے مگر بڑے ٹیکس خور مگرمچھوں کی وہ خود سرپرستی کررہے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف پٹرولیم مصنوعات بلکہ ہر وہ شے جس کی قیمت حکومت مقرر کرتی ہے ، اس کا بریک اپ عوام میں مشتہر کیا جائے اور متعلقہ ادارے اور وزارت کی ویب سائیٹ پر بھی وہ موجود ہو ۔ اگر حکومت شکر کی قیمت مقرر کرتی ہے تو عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ سرکار نے اس کی لاگت کا کیا اور کیسے تخمینہ لگایا ہے ۔ اسی طرح قدرتی گیس کی قیمت خرید سے لے کر ایک ایک مد میں لگائی جانے والی رقم کی تفصیل کا عوام کو علم ہونا چاہیے ۔