ایف بی آر کی جعلی کارکردگی

221

حکومت کے پاس جمع شدہ کسٹم ڈیوٹی کی مد میں واپسی کے دعوے 300 ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں ۔ ایف بی آر کے معمولات میں یہ بات شامل ہوگئی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہترین دکھانے کے لیے زاید ٹیکس وصول کرلیتی ہے اور یوں وزراء اور سرکاری افسران فخریہ پریس کانفرنسیں کرتے ہیں ۔ حقیقت میں یہ قابل ادائیگی رقم ہوتی ہے جو سرکار واپس کرنے کی پابندہوتی ہے ۔ ان جعلی اعداد و شمار سے نہ صرف حکمراں گمراہ ہوتے ہیں بلکہ ملک میں موثر اور حقیقی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جاسکتی ۔ اس جعلی کارکردگی کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ کاروباری افراد کی اتنی بھاری رقم سرکار کے پاس پھنسے رہنے کی وجہ سے ان کے کاروبار کی استعداد محدود ہوجاتی ہے اور یوں ملک کی معیشت اور ترقی کی شرح نمو پر منفی اثر پڑتا ہے ۔اس سے کرپشن کا دروازہ بھی کھلتا ہے ۔جس تاجر کے اربوں روپے ایف بی آر کے افسر کے رحم و کرم پر ہوں وہ اپنی اس رقم کو سرکار کے پنجے سے نکلوانے کے لیے بہ آسانی کروڑوں کی رشوت دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے ۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ ایف بی آر کے افسران جعلی ریفنڈ کلیم تو فوری ادا کردیتے ہیں کہ اس میں ان کا بھاری بھرکم حصہ ہوتا ہے مگر حقیقی برآمد کنندگان چکر ہی کاٹتے رہ جاتے ہیں ۔ ایف بی آر کی اس مجرمانہ روش کا اب خاتمہ کرنا چاہیے اور اس کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے ۔