نقیب اللہ محسود کا قرض

805

قاسم جمالی
پاکستان میں انصاف کا حصول اتنا مشکل ہے کہ لوگ نسل در نسل ایڑیاں رگڑ رگڑ کر انصاف کی دوہائی دیتے دیتے جہانِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود کی وفات ہے۔ محمد خان محسود اپنے بیٹے نقیب اللہ محسود کی بدنام زمانہ ایس ایس پی ملیر رائوانوار کے ہاتھوں جعلی پولیس مقابلے میں ہونے والی ہلاکت پر سراپا احتجاج تھے۔ آرمی چیف سے لیکر عمران خان تک سب ہی نے نقیب اللہ محسود کے بہیمانہ قتل پر لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انہیں انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن مظلوم نقیب اللہ محسود کا کمزور باپ پاکستان کے فرسودہ عدالتی نظام کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔ ظلم کا نظام اپنی سفاکیت اور درندگی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پوری شان اور شوکت کے ساتھ انصاف کو منہ چڑا رہا ہے۔ نقیب اللہ کا بوڑھا باپ سفاک قاتلوں کے سامنے چٹان کی مانند کھڑا ہوگیا۔ اس نے پوری دنیا کے سامنے رائو انوار کا چہرہ بے نقاب کیا اور اس کے کرتوت سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ محمد خان محسود تن تنہا ایک طاقت ور سفاک قاتل کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے قتل پر خاموش رہنے کے بجائے جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور ظلم کے نظام کو چیلنج کیا۔ بظاہر محمد خان محسود دنیا کی عدالت میں ہار گئے لیکن وہ اپنا مقدمہ ایک بڑی عدالت میں لیکر پیش ہوگئے ہیں۔ دنیا کی عدالت میں بیٹھے ہوئے منصف اس مقدمے کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا سکتے ہیں لیکن اللہ کی عدالت میں وہ اپنے مظلوم بیٹے کا مقدمہ جیت جائے گا اور سریے کی طرح اکڑی ہوئی گردنیں سر نگوں ہوں گی۔ سیدنا عمر ؓ کا قول ہے کہ دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی بھوکا مرجائے تو اس کا ذمے دار امیر المومنین ہوگا۔ ایک باپ اپنے نوجوان بیٹے کی جعلی مقدمے میں ہونے والی ہلاکت پر انصاف کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریںکھاتا رہا۔ کسی دھونس دھمکی میں نہیں آیا۔ آرمی چیف نے انہیں انصاف کی یقین دہانی کروائی لیکن نقیب اللہ محسود کے قاتل بہت مضبوط اورطاقت ور ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی قانون ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ واقعی پاکستان کا عدالتی نظام اتنا سست روی کا شکار ہے کہ انصاف کا حصول عام آدمی کے لیے ممکن نہیں رہا ہے۔ سانحہ ساہیوال کے قاتل نشان عبرت بننے کے بجائے آزاد ہوگئے ہیں۔ دادو میں دس سالہ ننھی بچی گل صباء کو سنگسار کرکے اسے موت کی گھاٹ اتار دینا سفاکیت اور ظلم کی انتہا ہے۔ انسانی حقوق کے چیمپئن ایسے موقع پر کہاں غائب ہوجاتے ہیں۔
تحریک انساف نے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا لیکن یہ کیسا نیا پاکستان ہے کہ آج یہاں غریبوں اور مظلوموں کی عزتین پامال کی جا رہی ہیں۔ انصاف ناپید ہوچکا ہے۔ سیدنا علی ؓ کا قول ہے کہ کفر کا معاشرہ تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا معاشرہ کسی بھی قیمت پر قائم نہیں رہ سکتا۔ نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود اپنے بیٹے کے قتل پر انصاف کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔ حکمرانوں ہوش کے ناخن لو۔ اللہ کے قہر سے ڈرو اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔
مرحوم محمد خان محسود نے سہراب گوٹھ اور اسلام آباد میں نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیے جانے پر احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ کوئی اور نقیب اللہ محسود رائوانوار جیسے درندوں کی بھینٹ نہ چڑھے۔ آرمی چیف کی یقین دہانی پر محمد خان محسود نے اپنا احتجاجی دھرنا ختم کیا تھا۔ اب جب کہ نقیب اللہ محسود کا باپ انصاف کے حصول کے لیے لڑتا ہوا جہانِ فانی سے کوچ کر گیا ہے۔ پاکستان کے عدل وانصاف کا نظام اتنا فرسودہ اور کمزور ہوچکا ہے کہ وہ ایک بوڑھے باپ کو اس کی زندگی میں انصاف فراہم نہیں کرسکتا۔ محمد خان محسود کی وفات نے نقیب اللہ محسود کے زخم کو تازہ کر دیا ہے۔ پاکستان میں انصاف کا حصول اتنا مشکل کیوں ہوگیا ہے کہ عوام انصاف کے حصول کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھائیں۔ آئین اور قانون کے ماہرین کی ذمے داری ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور انصاف کا حصول آسان اور سہل بنایا جائے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں انصاف کی فراہمی اتنی مشکل کیوں۔ رائوانوار اور اس جیسے سفاک قاتلوں کو اگر سزا مل جائے تو آئندہ کسی کو جرأت نہیں ہوسکے گی کہ وہ کسی بے گناہ کے خون سے ہولی کھیلے۔ نقیب اللہ محسود کا مقدس خون رنگ لائیگا اور بے گناہوں کے قاتل نشان عبرت بنے گے۔
وقت کے حکمرانو اس وقت سے ڈرو جب طاقت والے کا حساب طاقت والو جیسا ہی ہوگا۔ نقیب اللہ اور اس جیسے کتنے بے گناہ شہیدوںکا لہو خود پکارے گا اور مظلوموںکے ہاتھ ان قاتلوں کے گریبانوں پر ہوںگے۔ زمینی خدائوں کو اپنے ایک ایک ظلم کا حساب دینا ہوگا۔ دنیا کی زندگی دھوکہ اور فریب کے سواء کچھ نہیں ہے۔ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی کی تیاری کی جائے۔ جہاں نیک لوگوں کے لیے جنت اور اللہ کے باغیوں کے لیے جہنم کا سخت عذاب ہے۔ دوڑو اس جنت کی طرف جو آسمان اور زمین سے زیادہ بڑی ہے اور دنیا میں ظلم کرنے والو کے لیے سخت عذاب ہے اور بے گناہوں کو قتل کرنے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلائے جائیں گے۔
ماہ دسمبر شرو ع ہوگیا ہے اور چند دنوں کے بعد نیا سال شروع ہوجائے گا اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری وساری رہے گا۔ نیکی اور بدی کی لڑائی ہمیشہ جاری وساری رہے گی۔ ایسے میں اہل حق کے ساتھ کھڑا ہونا ہی افضل اور نیکی کا کام ہے۔ حق چاہے کمزور ہو لیکن حق حق ہی ہوتا ہے۔ حق کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ حق کو کامیابی ضرور ملتی ہے اور حق کامیاب ہوتا ہے۔ نقیب اللہ محسود کے والد حق کے لیے تن تنہا کھڑے ہوئے انہوں نے وقت کے ظالموں کو للکارا اپنی جان کی پروا نہیںکی اور اپنے بیٹے کے سفاکانہ قتل کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔ دنیا میں نہ صحیح آخرت میں انہیں اس کا اجر اور انصاف ضرور ملے گا۔ سال 2019 میں نہ صحیح سال 2020 میں انہیں انصاف ضرور ملے گا ورنہ آخرت میں تو بادشاہوں کے بادشاہ کا انصاف بڑے بڑوں کی گردنوں پہ لگا ہوا سریا اکھاڑ پھینکے گا اور دنیا میں نہ صحیح آخرت میں ضرور مظلوموں کا حال بدلے گا۔
,,پرندے پھر وہی ہوں گے شکاری جال بدلے گا
مہینے پھر وہی ہوں، سنا ہے سال بدلے گا
وہی حاکم، وہی غربت، وہی قاتل، وہی غاصب
بتائو کتنے سال میں ہمارا حال بدلے گا،،