گھبرایا ہوا کون ہے؟

482

وزیر اعظم عمران خان نیازی نے مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفان میں گھرے پاکستانی عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ پیش کرنے کے بجائے ایک مرتبہ پھر پرانی راگنی سنائی ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ جب عمران خان نیازی نے نیا نیا اقتدار سنبھالا تھا اور ان کی حکومت کی ناقص پالیسیوں کے سبب ملک میں روپے کو اچانک بے قدر کردیا گیا تھا جس کے بعد مہنگائی کا گراف تیزی سے عمودی طور پر اوپر کی طرف بڑھنا شروع ہوگیا تھا، اس وقت بھی عمران خان نیازی نے کچھ اسی طرح کی باتیں کی تھیں کہ مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں مگر یہ ابھی اور نکلیں گی۔ عمران خان نیازی عجیب قسم کی شخصیت کے حامل ہیں جو زخم پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی حکومت کے قیام کو سوا برس سے زاید کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کے بعد سے عوام پر ابتلا کا جو دور شروع ہوا ہے اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں مگر عمران خان نیازی کی وہی راگنی ہے کہ ابھی چیخیں اور نکلیں گی۔ انہوں نے جمعرات کو بھی یہی فرمایا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ اگر گاڑی کی سمت درست ہو اور وہ چل بھی رہی ہو تو مسافروں کو یقین ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر وہ منزل پر پہنچ ہی جائیں گے تاہم اگر گاڑی ایک سمت چلنے کے بجائے نہ صرف دائرے میں گھوم رہی ہو بلکہ اس کے ڈرائیور کے بارے میں بھی علم ہوجائے کہ وہ اناڑی ہے تو مسافروں کا خوف بجا ہے کہ منزل پر پہنچنا تو درکنار اب تو جان کے بھی لالے پڑ گئے۔ عمران خان نیازی بھی کچھ ایسے ہی ڈرائیور ثابت ہوئے ہیں، اس امر کے باوجود کہ عوام کو اب دیوار پر لکھا ہوا صاف نظر آنے لگا ہے، ان کی قوالی جاری ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ عمران خان نیازی اور ان کی ٹیم کی کارکردگی کو پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے سے پرکھا جاسکتا ہے۔ جمعرات ہی کو پشاور ہائی کورٹ نے بی آر ٹی کے بارے میں تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔ بی آر ٹی کے پروجیکٹ میں کرپشن ثابت ہونے پر پشاور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو 45 دن میں تحقیقات مکمل کرکے عدالت میں جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ پی ٹی آئی نے کسی وژن اور منصوبہ بندی کے بغیر مذکورہ پروجیکٹ شروع کیا۔ منصوبے کو سیاسی رنگ دیا گیا جس کے باعث اس منصوبے میں تاخیر ہوئی اور اس کی لاگت میں اضافہ ہوا۔ بدانتظامی کے باعث تین پروجیکٹ ڈائریکٹروں کو ہٹایا گیا۔ پشاور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ جو کمپنی پنجاب میں بلیک لسٹ تھی، اسے بی آر ٹی کا ٹھیکا دیا گیا، کنسلٹنٹ نے بس پر سوار ہونے والے مسافروں کا تخمینہ 3 لاکھ 40 ہزار لگایا جو لاہور میں سوار ہونے والے مسافروں سے بھی زیادہ ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق منصوبے کے لیے نااہل کنسلٹنٹس کو رکھا گیا لیکن خیبر پختون خوا کی حکومت فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے اس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں جارہی ہے۔ گویا یہ منصوبہ مزید لٹک جائے گا جو اپریل 2018 میں مکمل ہونا تھا۔ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بی آر ٹی منصوبے کا جائزہ لیا جائے اور اس کی تطبیق پورے پاکستان پر کی جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان نیازی پورے ملک کے ساتھ اصل میں کر کیا رہے ہیں۔ اب تو گھر کے بھیدی ہی اصل کہانی سنانے لگے ہیں۔ وفاقی کابینہ میں دوبارہ شامل کیے گئے اسد عمر کا چند دن قبل ہی بیان سامنے آیا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی اصل وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بلا وجہ بے قدری ہے۔ عمران خان کی وجہ شہرت ہی یوٹرن ہے۔ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں، اس سے یوٹرن لینے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے۔ پہلے انہوں نے کہا کہ وہ لوٹی گئی دولت ملک میں واپس لائیں گے پھر ان کے چہیتے اور ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی نے بتایا کہ ملک سے باہر بینکوں میں جمع کروائی گئی پاکستانیوں کی رقم قانونی طریقے سے باہر گئی ہے اور اس میں سے ایک ڈالر بھی پاکستان نہیں آسکتا۔ جب برطانیہ کے تحقیقاتی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی نے از خود ملک ریاض کے اثاثوں اور بینک کھاتوں کی تحقیقات شروع کردی جس سے گھبرا کر ملک ریاض نے برطانوی تحقیقاتی ادارے کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اپنی جائداد اور بینک میں جمع شدہ رقوم برطانیہ کے حوالے کردیں تو عمران خان نیازی اور ان کی پوری ٹیم ایک ثابت شدہ بدعنوان شخص کے دفاع کے لیے میدان میں آگئی اور ملک ریاض کو فائدہ پہنچانے کے لیے برطانیہ میں کیے گئے جرم کے بدلے وصول کیے جانے والے جرمانے کی رقم کو پاکستان میں کیے گئے جرمانے میں شمار کرلیا۔ ملک ریاض کی جانب سے برطانوی تحقیقاتی ادارے کے سامنے اپنی جائداد اور بینک کھاتے سرنڈر کرنے کا واضح مطلب ہی یہ ہے کہ ملک ریاض نے اپنے اس جرم کو تسلیم کرلیا کہ مذکورہ جائداد اور بینک کھاتے قانونی طریقے سے حاصل کی گئی رقم کے نہیں ہیں۔ برطانیہ کی جانب سے تصفیے کے نتیجے میں حاصل کی گئی رقم 19 کروڑ ڈالر یا 380 ارب روپے کی بھاری رقم پاکستان کو منتقل کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ مذکورہ رقم پاکستان میں بدعنوانی کے ذریعے کمائی گئی ہے۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک ریاض کے خلاف نئے سرے سے تحقیقات شروع کی جاتی اور نہ صرف ملک ریاض بلکہ اس کے ساتھ جرائم میں شامل تمام سرکاری اور غیر سرکاری لوگوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جاتا، ملک ریاض کو برطانیہ کی جانب سے دی گئی سزا کو عملی طور پر ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ملک ریاض کیس سے دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران خان نیازی بدعنوان عناصر سے لوٹی گئی رقم نکلوانے اور سرکاری خزانے میں جمع کروانے میں کتنی دلچسپی رکھتے ہیں۔ جہاں تک عمران خان نیازی کے بیانات کا تعلق ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ تقریریں اچھی کرتے ہیں مگر یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ ہمیشہ ان کا فعل ان کے قول کے برعکس ہوتا ہے۔ عمران خان نیازی کہتے ہیں کہ نچلی سطح پر کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں ارب روپے کی کرپشن نچلی سطح پر نہیں ہوتی ہے بلکہ اوپری سطح پر ہوتی اور ملک ریاض جیسے ان بڑے مگرمچھوں کے نہ صرف عمران خان نیازی بلکہ ان کی پوری ٹیم دفاعی لائن بنی ہوئی ہے۔ دوسری طرف خود حکمران تسلیم کر رہے ہیں کہ اداروں کے درمیان جنگ ہورہی ہے۔ تحریک انصاف کے تاسیسی رکن حامد خان نے وجہ بتائو نوٹس کے جواب میں کہا ہے کہ تحریک انصاف پر مافیا قابض ہے اور عمران خان حزب اختلاف کو مافیا کہتے نہیں تھکتے۔ قوم گھبرائے نہ گھبرائے اس وقت تو خود تحریک انصاف گھبرائی ہوئی لگتی ہے اور اس کے شریک چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ تحریک انصاف والوں کے چہرے اُترے ہوئے ہیں۔