عالمی بینک کی مصالحت یا جانبداری

361

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ عالمی بینک کا مصالحتی نظام نقائص پر مبنی ہے ۔ پاکستان کے ریکوڈک منصوبے پر عالمی بینک کے مصالحتی نظام کا تذکرہ کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز کے تحقیقاتی رپورتاژ میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسے کیس میں پاکستان پر تقریبا چھ ارب ڈالر کا جرمانہ کیا گیا جو نہ تو منظور کیا گیا اور نہ ہی اس پر عمل شروع کیا گیا ۔ امریکی اخبار نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ کے نتیجے میں لکھا ہے کہ عالمی بینک کے مصالحتی نظام سے غریب ممالک کی قیمت پر امیر ممالک کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے ۔ اخبار نے عالمی بینک کے مصالحتی نظام کے نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ریکوڈک کے لیے مقرر کردہ مصالحتی کونسل میں ایک بھی رکن متعلقہ شعبہ کا ماہر نہیں تھا ۔ عالمی بینک کے مصالحتی نظام پر پہلے دن سے ہی انگشت نمائی ہوتی رہی ہے ۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان آنے والے دریاؤں کا رخ موڑنے اور ان پر ڈیم بنانے کی مثالیں موجود ہیں ۔ عالمی قوانین کے برخلاف بھارت نے پاکستان آنے والے دریاؤں کا رخ موڑ دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی زرعی زمینیں بنجر ہوگئی ہیں۔ عالمی بینک کے مصالحتی کمیشن نے ہر مرتبہ حقائق کے برخلاف پاکستان کے خلاف اور بھارت کے حق میں فیصلہ دیا ۔ اسی طرح کے دیگر کیس بھی موجود ہیں جن میں پاکستان پر نہ صرف بھاری جرمانہ عائد کیا گیا بلکہ یکطرفہ طور پر اسے مخالف فریق کو فوری طور پر ادا کرکے اسے پاکستان کو دیے جانے والے قرضے میں سے کاٹ لیا گیا۔ جس سے پاکستان کے معاشی نظام پر شدید اثرات مرتب ہوئے۔ مصالحتی کونسل یا ثالثی کونسل کہیںسے بھی عدالتی نظام کے متبادل نہیں ہوتیں اور ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے فریقین کو مجبور بھی نہیں کیا جاسکتا مگر عالمی بینک اس کے برخلاف کرتا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود پاکستان کے ارباب اقتدار ہر مرتبہ عالمی بینک کی ثالثی کوقبول کرلیتے ہیں اور اس کے خلاف موثر صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کرتے ۔ ریکوڈک کیس کے خلاف اپیل بھی عالمی بینک میں کی ہوئی ہے مگر اس پر کوئی موثر پیروی یا عالمی بینک پر کوئی اثر و رسوخ کا استعمال نہیں ہے ۔ اس بات سے ہر شخص واقف ہے کہ عالمی بینک ہو یا اس طرح کا کوئی اور ادارہ ، سارے فیصلے سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں اور ان کا میرٹ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تو پھر کیوں جانتے بوجھتے پاکستان اس طرح کے معاملات میں عالمی بینک کے چنگل میں پھنستا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان عالمی بینک سے دو ٹوک بات کرے کہ ثالث کا مطلب مصالحت ہے فیصلہ دینا نہیں ہے بلکہ رائے دینا ہے اور اس رائے پر عمل کرنا پاکستان کے لیے لازمی نہیں ہے ۔عالمی بینک کی ثالثی کی حیثیت عالمی عدالت سے کمتر ہے مگر عالمی عدالت بھی اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کسی ملک کو مجبور نہیں کرسکتی ۔ اس کی مثالیں موجود ہیں کہ امریکا سمیت کئی ممالک نے عالمی عدالت کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کردیا ۔ آئندہ کے لیے پالیسی طے کرلی جائے کہ کسی بھی تنازع پر عالمی بینک کی ثالثی کوئی بھی پاکستانی حکومت قبول نہیں کرے گی اور عالمی بینک کے پاکستان کے خلاف کیے گئے گزشتہ جانبدارانہ فیصلوں کو ماننے سے انکار کیا جائے ۔ خصوصی طور پر بھارت کے پاکستانی دریاؤں پر بنائے گئے غیر قانونی ڈیم اور پانی کا رخ موڑنے والے پروجیکٹوں کے بارے میں فیصلوں پر واضح اعلان کیا جائے ۔ اس بارے میں بھارت کو بھی مطلع کیا جائے کہ پاکستان ایسے کسی بھی فیصلے کو ماننے کا پابند نہیں ہے ۔ اگر مسئلہ کشمیرکو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کروا لیا جائے تو پاکستان کے لیے پانی کا مسئلہ ازخود حل ہوسکتا ہے ۔ مگر کیا کیجیے کہ بھارت مسلسل جارحیت کررہا ہے اور پاکستان کے حکمراں محض تقاریر تک محدود ہیں ۔ عالمی بینک ہو ،بھارت یا کوئی اور زبردست ، سمجھنے کی بات یہی ہے کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ۔