ملک ریاض سے وصول کر دہ رقم کسے ملے گی؟

343

بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض حسین کی برطانیہ کے انسداد بدعنوانی کی تحقیقات کرنے والے ادارے نیشنل کرائمز ایجنسی کے ساتھ تصفیے نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ ملک ریاض کے جرائم اس سے بھی زیادہ سنگین ہیں جو اب تک سامنے آئے ہیں ۔ برطانیہ میں عدالتی کارروائی کے نتیجے میں کسی بڑی سزا سے بچنے کے لیے ملک ریاض نے 19 کروڑ پاؤنڈ اسٹرلنگ کی نقدی اور اثاثے نیشنل کرائمز ایجنسی کے حوالے اس شرط پر کر دیے کہ ان کے خلاف مزید کارروائی نہیں کی جائے گی ۔ چونکہ یہ اثاثے پاکستانیوں کو لوٹ کر برطانیہ میں بنائے گئے تھے ،ا س لیے اس رقم کو فوری طور پر پاکستان کو منتقل کردیا گیا ہے ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ملک ریاض کے ساتھ پاکستان میں بھی رہی ہے ۔ رواں برس ہی مارچ میں ملک ریاض حسین نے سپریم کورٹ میں 460 ارب روپے بطور جرمانہ ادا کرنے کی ہامی بھری تھی ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک ریاض حسین نے ہزاروں ارب روپے کی پاکستان میں لوٹ مار کی ہے مگر وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر انصاف کے کٹہرے میں آنے سے بچا ہوا ہے ۔ اب ملک ریاض نے ایک نئی کوشش شروع کردی ہے کہ برطانیہ میں ادا کیے گئے جرمانے کی رقم ہی کو پاکستان میں عاید کیے جانے والے جرمانے میں شمار کروالیا جائے ۔ ملک ریاض کی جانب سے کی جانے والی کوشش بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص پاکستان میں قتل کے جرم میں ماخوذ ہو اور برطانیہ میں بھی وہ ایک اور قتل کرڈالے ۔ برطانیہ میں سزا پانے کے بعد کہے کہ چونکہ وہ برطانیہ میں قتل کی سزا بھگت چکا ہے اس لیے اب پاکستان میں کیے جانے والے قتل کی سزا بھی وہی شمار کرلی جائے ۔پاکستان کے کرپٹ نظام اور ملک ریاض کی جانب سے نوازے گئے بااثر افراد کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ ملک ریاض اپنی اس مذموم کوشش میں کامیاب ہو بھی جائے ۔ اگر ایسا ہوا تو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کا عدالتی نظام بہت کمزور ہوچکا ہے اور اب پاکستان میں ہر کسی کو کسی بھی سطح پر انصاف سے مایوس ہوجانا چاہیے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ ملک ریاض کی اس کوشش کو نہ صرف ناکام بنادے گی بلکہ ملک ریاض کو اس کے کیے گئے جرائم کے مطابق قرار واقعی سزا بھی دے گی ۔اس معاملے میں حکمرانوں کا رویہ یہ ہے کہ کوئی بھی ملک ریاض کا نام لینے کی جرأت نہیں کررہا۔ جمعرات ہی کو حکومت کی ترجمان فردوس عاشق نے بھاشن دیتے ہوئے رقم کا ذکر تو کیا لیکن اصرار کے باوجود ریاض ملک کا نام لینے پر تیار نہیں ہوئیں۔ انہیں کس بات کا خوف تھا؟