مُقْتَدِرَہ

848

ایک اصطلاح Establishment ہے اس کا ترجمہ ہم ’’مُقْتَدِرَہ‘‘ سے کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے حقیقی حاکم ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب پس پردہ فیصلہ کرنے والی حقیقی قوتوں کا نام لے کر ان کو اپنی نفرت یا ملامت کا ہدف نہ بنایا جارہا ہو، تو کہا جاتا ہے: یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے یا اسٹیبلشمنٹ وزیر اعظم، وزیرِ اعلیٰ، کسی جماعت یا تنظیم سے مطمئن نہیں ہے یا ہمارے خلاف یہ ساری کاروائی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر ہورہی ہے، وغیرہ۔ گویا اسٹیبلشمنٹ قدیم یونانی فلسفے کی زبان میں ایک ’’ھَیُوْلیٰ‘‘ یا تصوراتی طاقت ہے جو ہر صورتِ جسمیہ میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مُقتَدِرہ کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ یہ ریاست کی مجموعی ہیٔت ِ حاکمہ کا نام ہوتا ہے، جو فیصلہ کرنے اور اُسے نافذ کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ بعض اوقات مُقْتَدِرہ مختلف اداروں خاص طور پر الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا میں اپنے گماشتوں کے ذریعے بولتی ہے یا باخبر و مستند ذرائع کا حوالہ دے کر خبریں اِفشا کی جاتی ہیں، بے یقینی و بے اعتمادی اور انتشار کی فضا پیدا کی جاتی ہے، ایسا سماں باندھا جاتا ہے کہ جیسے اگلی صبح نمودار ہونے سے پہلے بساطِ اقتدار لپیٹ دی جائے گی۔ Cracy یونانی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں: طرزِ حکومت، جیسے Autocracy (آمرانہ طرزِ حکومت)، Theocracy (مذہبی طبقے کی حکومت یا پاپائیت)، Democracy (جمہوریت)، Aristocracy (اشرافیہ کی حکومت) وغیرہ، الغرض Cracy کے ساتھ جو بھی سابقہ لگے گا، اس کے معنی کا تعیّن ہوجائے گا، اِسی سے Bureaucracy یعنی نوکر شاہی کی اصطلاح وجود میں آئی۔
انگریزوں نے متحدہ ہندوستان میں اپنی استعماری حکومت کو چلانے کے لیے بیوروکریسی کا ادارہ تشکیل دیا، انہیں طنز کے طور پر بدیسی حکمرانوں کا ایجنٹ یا کالے انگریز کہا جاتا ہے۔ یہ طبقہ استعماری حکمرانوں کی بادشاہت کو قائم ودائم رکھنے اور روز مرّہ امور کو چلانے کا فریضہ انجام دینے کے لیے تھا۔ اس کے لیے انہوں نے انڈین سِول سروس کا ادارہ تشکیل دیا۔ اس کے ذریعے محکوم ہندوستان کے جدید اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین ترین لوگوں کو منتخب کیا جاتا، پھر انہیں ایک خاص تربیتی، ذہنی اور فکری سانچے میں ڈھالا جاتا، یہ بلاشبہ اپنے عہد کے عالی دماغ لوگ تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ ترہیب اور ترغیب یعنی دبائو اور لالچ کے حربوں سے عوام کو کنٹرول کریں۔ یہ لوگ راجوں مہاراجوں، نوابوں، جاگیرداروں اور بعض صورتوں میں مذہبی پیشوائوں کو انعام واکرام سے نواز کر اپنے کارندے کے طور پر کام لیتے تاکہ عوام غلامی کے شکنجے میں کَسے رہیں اور کسی میں خوئے آزادی اور ادائے سرفروشی پیدا نہ ہونے پائے، بس غلامی پر قناعت کیے رہیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت برطانوی سامراج کے ترکے کے طور پرآئی سی ایس کیڈر کا ایک حصہ پاکستان کے حصے میں آیا اور شروع ہی سے نظام کی جڑوں میں بیٹھ گیا۔ انگریزوں کا مقصد یہ تھا کہ ان کے ملک سے نکلنے کے بعد اُن کی تربیت یافتہ نوکر شاہی کی صورت میں اُن کی فکر، اُن کی تہذیب بدستور حاکم رہے گی اور اُن کا ایجنڈا چلتا رہے گا اور یہاں کے لوگ حقیقی آزادی کی نعمت سے کبھی بھی فیض یاب نہیں ہوپائیں گے۔ اس خطے میں انہوں نے جانے سے پہلے جمہوریت کا چسکا بھی لگایا، مگر ہمارے ملک میں تسلسل کے ساتھ نہ جمہوریت کا چلن ہوا اور نہ آمریت کا راج دوام پاسکا۔
پاکستان میں آگے چل کر ایک نیا کیڈر سول سروس آف پاکستان وجود میں آیا جو آئی سی ایس کا معنوی تسلسل تھا۔ یہ کیڈر صدر ایوب خان کے آخری دور تک جاری وساری رہا۔ تاہم ان کے دور تک چونکہ اعلیٰ بیوروکریسی کے چنائو میں میرٹ کی کارفرمائی کافی حد تک جاری وساری رہی، اسی لیے اس کیڈر میں بھی کافی ذہین وفَطین لوگ تھے۔ یہ لوگ نظام کو سامراجی آقائوں کے طرز پر تسلسل کے ساتھ چلاتے رہے۔ دسمبر 1971 کے اواخر میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، پھر عبوری آئین کے تحت صدر اور 1973ء کے متفقہ آئین کی منظوری کے بعد وزیرِ اعظم بنے۔ انہوں نے بیوروکریسی کا کنٹرول کمزور کرنے کے لیے اعلیٰ عہدوں پر براہِ راست اپنے مَن پسند افراد کے تقرّر کا سلسلہ شروع کیا اور یہیں سے اعلیٰ نوکر شاہی کے معیار کا زوال شروع ہوا۔ منصوبہ بندی اور نظریاتی کیڈر تیار کیے بغیر صنعتوں، مالیاتی اور تعلیمی اداروں کے قومیانے کی پالیسی کی وجہ سے صنعتی ترقی کا پہیہ بھی رک گیا، تعلیم کا معیار بھی تنزّل کا شکار ہوا اور اداروں میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور نا اہلی کا نفوذ ہوا۔ بعد میں سینٹرل سپیرر سروسز کا کیڈر قائم کیا گیا۔ وفاقی سطح پر پاکستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مختلف شعبہ جات کے اعلیٰ عہدوں کے لیے سلیکشن کا نظام متعارف ہوا۔ یہ سلیکشن ماضی میں گزیٹڈکلاسII اور موجودہ کیڈر کے مطابق گریڈ سترہ سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ، فارن سروس، پولیس سروس، کسٹمز سروس، پوسٹل سروس، انکم ٹیکس سروس الغرض مختلف شعبہ جات کے لیے میرٹ کی بنیاد پر سلیکشن کی جاتی ہے۔ لیکن اب اس کا معیار آئی سی ایس اور سی ایس پی سے بہت فروتر ہوچکا ہے۔
انہی میں سے ترقی پاکر جب افسران گریڈ بیس میں جاتے ہیں تو انہیں اگلے درجات میں ترقی کے لیے خصوصی تربیت دی جاتی ہے، اس کے لیے پہلے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن کا ادارہ قائم کیا گیا تھا، اب یہ ادارہ نیشنل کالج آف مینجمنٹ بن چکا ہے۔ مجھے بھی اس ادارے میں زیرِ تربیت اعلیٰ افسران سے خطاب اور سوال وجواب کی نشست کے سیشن میں شرکت کا کئی بار موقع ملا ہے، اس کے تربیت یافتہ افسران گریڈ بیس تک جاسکتے ہیں۔ اُس کے بعد گریڈ اکیس اور بائیس میں ترقی کے لیے پہلے نیشنل ڈیفنس کالج تھا، اب اِسے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کا نام دے دیا گیا ہے، اس کا سربراہ بالعموم فوج کا حاضر سروس لیفٹننٹ جنرل ہوتا ہے۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں گریڈ اکیس اور بائیس میں ترقی پانے والے مختلف شعبوں کے سول افسران اور بریگیڈیئر سے اوپر کے عہدوں پر ترقی پانے والے فوجی افسران ایک ساتھ تربیت پاتے ہیں۔ یہاں سے ہماری اعلیٰ سول اور ملٹری بیوروکریسی کا آپس میں ربط قائم ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں اور یہ باہمی تعارف نظام کو مربوط کرنے اور ایک پالیسی کے تحت چلانے میں کام آتا ہے، یہی ہماری اصل مُقْتَدِرہ یا اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ان میں سے جو منتخب افراد تربیتی اور مطالعاتی دوروں پر امریکا جاتے ہیں، وہاں سے ان کے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط قائم ہوتے ہیں اور وہ اُن میں سے ایسے افراد کو نظر میں رکھ لیتے ہیں جو واپس اپنے نظام میں جذب ہوکر ان کے مقاصد کو پورا کرسکیں۔
آج ہماری بیوروکریسی میں ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے پروفیشنل بھی ہیں اور ان پر قوم کا جو پیسہ خرچ ہوا، وہ بے مصرف رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹر میڈیٹ کے بعد میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر پروفیشنل شعبوں کی طرح ذہنی رجحان کا جائزہ لے کر بیوروکریسی کا انتخاب کیا جائے اور ان کی تعلیم نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ساتھ لنک کردی جائے، اس میں اپنے شعبے کے مضامین کے علاوہ، سماجی علوم، تاریخ وادب، اسلام کے بارے میں خاطر خواہ آگہی، نفسیات اور لیڈر شپ کے مضامین شامل ہوں، نیز ہر سروس کے اپنے تخصصات کے مضامین بھی رکھے جائیں، مثلاً: ڈی ایم جی گروپ کے لیے مینجمنٹ کورسز، فارن سروس کے قانون بین الاقوام، ڈپلومیسی وغیرہ، پولیس کے لیے قانون، نظم اور جرائم سے متعلقہ قوانین، اسی طرح کسٹمز، انکم ٹیکس اور دیگر سروسز کے ان کے شعبے کے مضامین شامل ہوں۔
اگرچہ آئینی اعتبار سے پالیسیاں تشکیل دینے اور فیصلے کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے موجود ہونے کی صورت میں سول حکمرانوں کے پاس ہوتا ہے، لیکن ان کے فیصلوں کی تنفیذ کا اختیار بھی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی ہوتا ہے۔ چونکہ حکمران بھی ان پر انحصار کرتے ہیں، لہٰذا یہ اُن کی کمزوریوں کا بخوبی ادراک کرلیتے ہیں اور پھر ان پر معنوی اعتبار سے غلبہ پالیتے ہیں اور پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
امریکا وبرطانیہ سمیت اسٹیبلشمنٹ ہر ملک کے نظام میں مؤثر ہوتی ہے، فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور پالیسیاں تشکیل دیتی ہے۔ امریکا میں بھی پینٹا گون، سی آئی اے، ہوم لینڈ سیکورٹی اور وائٹ ہائوس کی بیوروکریسی کا نام اسٹیبلشمنٹ ہے۔ وہاں مختلف شعبوں کے لیے پالیسیاں تشکیل دینے کے لیے مجالسِ مفکّرین بھی کام کر رہی ہوتی ہیں، جن میں مختلف شعبوں کے ماہرین اور وہاں کی صفِ اول کی یونیورسٹیوں کے پروفیسر صاحبان شامل ہوتے ہیں، ان مجالس کو فنڈنگ صنعتی یا کاروباری ادارے کرتے ہیں، لہٰذا پالیسیاں تشکیل دینے میں اُن کے مفادات کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ وہ ہمارے حکمرانوں کی طرح الل ٹپ، بے سوچے سمجھے اور ذاتی ترجیحات پر مبنی فیصلے نہیں کرتے، ان کے فیصلے قومی ترجیحات پر مبنی ہوتے ہیں، اُن میں کسی حد تک جمہوریت کی روح کارفرما ہوتی ہے اور قومی مفادات کا بھی تحفظ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں نظام کے عدمِ تسلسل کی وجہ سے بے اعتمادی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے، پالیسیوں کا تسلسل نہیں ہوتا، اتفاقِ رائے پر مبنی کوئی قومی ایجنڈا مرتب نہیں ہوتا۔ سیاست دان اپنی اپنی محدود ذاتی اور گروہی سوچ، وقتی مفادات، محبتوں اور نفرتوں کے اسیر ہوتے ہیں، اس لیے وہ بے توقیر رہتے ہیں، کیونکہ جب وہ خودایک دوسرے اور ریاستی وحکومتی مناصب کا احترام نہیں کرتے تو دوسروں سے اس کی توقع عبث ہے۔ میڈیا کا تو سارا کاروبار اور اسکرین کی رونقیں سیاست دانوں کی باہمی آویزش، چپقلش اور ایک دوسرے کی توہین وتحقیر کے ساتھ وابستہ ہیں۔
پارلیمنٹ کا وجود علامتی ہے، اُسے حسبِ ضرورت استعمال کیا جاتا ہے۔ اور تو چھوڑیے! آئینی ترامیم پر بھی کبھی پارلیمنٹ میں تفصیلی بحث نہیں ہوئی، نہ کسی قانون سازی پر نظریاتی بحث ہوئی ہے، تمام معاملات پارلیمنٹ سے باہر اور پسِ پردہ طے پاتے ہیں اور پارلیمنٹ کا کام ان طے شدہ امور کی توثیق رہ جاتا ہے۔ ایگزیکٹیو پر پارلیمنٹ کی گرفت نہ ہونے کی وجہ سے بے تدبیری کے مظاہر زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں، عدلیہ نے کافی حد تک اپنی حیثیت کو منوالیا ہے، لیکن ریاست کی حُسنِ کارکردگی کا مظہر مقتدرہ کے تمام اعضاء وجوارح کی اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں رہنے اور فعال ہونے میں ہے جس کے آثار سرِدست معدوم ہیں۔ موجودہ وزیرِ اعظم نہ تو پارلیمنٹ کو اہمیت دیتے ہیں، نہ اس کے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کے رہنمائوں کے ساتھ اُن کا احترام کا رشتہ یا ورکنگ ریلشین بھی نہیں ہے، اس پس منظر میں خیر کی توقع عبث ہے۔ نظام جیسا بھی چل رہا ہے، یہ حالات کے جبر کا نتیجہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس میں بلیک میلنگ کا عنصر زیادہ ہے۔ اس وقت بھی ہم اسی غیر یقینی اور تکلیف دِہ صورت حال کا شکار ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مقدر میں سیاسی قیادت کا جو اثاثہ ہے، وہ وقت گزاری والے مزاج کا ہے اور میوزیکل چیئرکا گیم جاری ہے، کوئی کرسی بچانے کی فکر میں سرگرداں ہے، کوئی دوسرے کو دھکا دے کر کرسی حاصل کرنے کے غم میں گُھل رہا ہے اور کوئی اس آس پر جی رہا ہے کہ پورے نظام کی بساط ہی لپیٹ دی جائے کہ نہ رہے بانس اورنہ بجے بانسری۔