وزارت قانون کسی جج کے اثاثے کا جائزہ لینے کی مجاز نہیں،عدالت عظمیٰ

197

اسلام آباد (صباح نیوز) عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت نے کسی کو مواد اکٹھاکرنے کی ذمے داری دینی ہے تو وہ تحریری ہو‘ زبانی ہدایات کی قانون میں کوئی اہمیت نہیں ہے‘ وزارت قانون کسی جج کے اثاثے کا جائزہ لینے کی مجاز نہیں۔ عدالتی استفسار پر جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر ملکنیبتایا کہ جوڈیشل کونسل آئینی اختیار کے تحت معلومات لے سکتی ہے لیکن چونکہ ریفرنس کی بنیاد غیر قانونی ہے لہٰذا غیر قانونی بنیاد پر کھڑی عمارت قانونی نہیں ہوتی۔ وکیل منیر ملک کا موقف تھا کہ ٹیکس حکام غیر متعلقہ یا غیر مجاز آفیسر کے گوشواروں کی تفصیل نہیں دے سکتے‘ وزیراعظم بھی ٹیکس حکام سے کسی شخص کی ٹیکس معلومات نہیں مانگ سکتے۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے دریافت کیا کہ آیا پھر شواہد کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ منیرملک نے جواب دیا کہشواہد کو بالکل نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے واضح کیا کہ بھارت میں غیر قانونی طریقے سے
حاصل کردہ شواہد کو بھی قابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کیا جو مواد اکٹھا کیا گیا اس پر صدر مملکت کا ایکشن لینا نہیں بنتا تھا؟ جس پر منیر ملک کا موقف تھا کہ کسی جج کے خلاف مواد مجاز اتھارٹی اکٹھا کر سکتی ہے۔ کیس کی سماعت آج (منگل) تک ملتوی کردی گئی۔
عدالت عظمیٰ