سلیکشن اور ایکسٹینشن کس ترقی یافتہ ملک سے آئی

300

وزیر اعظم پاکستان بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے جو کئی دن سے میڈیا کے ذریعے چلایا جارہا تھا اور انہوں نے بھی طلبہ یونینوںسے متعلق بیان دے دیا لیکن لگتا ہے کہ وہ طلبہ یونینوں اور طلبہ تنظیموں کا فرق بھی نہیں جانتے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ پرتشدد طلبہ یونینیں تعلیمی ماحول تباہ کرتی ہیں۔ تاہم وہ بھی پروپیگنڈہ کا شکار ہوگئے ہیں اور انہوں نے ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نے عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں کے تجربے سے استفادہ کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اگرچہ یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت اس نہج پر سوچنے لگی ہے اور اس حوالے سے مثبت روپے بھی رکھتی ہے لیکن عمران خان اس حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں کہ میڈیا کے ہنگامے کے سائے میں وہ پاکستانی سیاست میں چھائے اور وزیر اعظم بنائے گئے۔ ان کے ساتھ میڈیا شور مچاتا اور مسلم لیگی اس کا جواب دیتے اس طرح جس ایجنڈے پر مقتدر قوتیں میڈیا کے ذریعے لانا چاہتی تھیں حکومت ، اپوزیشن اور تمام سیاسی جماعتیں اس طرف چل پڑتیں۔ طلبہ یونینز اور تنظیموں کے حوالے سے ایک غلط فہمی مارشل لا کے وقت سے خصوصاً جنرل ضیاء الحق کے دور سے میڈیا ہی کے ذریعے پھیلائی گئی تھی کہ طلبہ یونینز کی وجہ سے تعلیمی ماحول خراب ہوتا ہے۔عمران خان جنہوں نے پاکستانی تعلیمی اداروں کی شکل بھی نہیں دیکھی اور یہاں کی یونینیں بھی نہیں دیکھیں اسی لیے بے سروپا باتوں میں مصروف ہیں۔ ویسے تو ملک کا وزیر اعظم ہونے کے ناتے ان کو نہایت ذمے دارانہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیے اور بیان دیتے وقت بھی ان کو اور ان کے میڈیا منیجرز کو نظر ثانی کرنا چاہیے لیکن وزیراعظم ہائوس سے اگر آرمی چیف کی مدت ملازمت کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہی تین تین مرتبہ غلطیاں ہوں گی تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روز مرہ کے بیانات کا کیا حال ہوگا۔ وزیر اعظم نے یونینوں کو پرتشدد قرار دیا ہے جبکہ یونینیں تشدد کر ہی نہیں سکتیں۔ ایک دو واقعات کی بنیاد پر ملک بھر کی طلبہ یونینوں کو پرتشدد قرار دینا زیادتی ہی نہیں غیر ذمے داری بھی ہے۔ یہ طلبہ یونینیں ہی تو تھیں جو کئی طلبہ تنظیموں کے درمیان مقابلے کے بعد منتخب ہو کر آتی تھیں اور کالجوں اور جامعات کا نظام چلاتی تھیں۔ ساری خرابی یونین الیکشن ختم کرنے اور لسانی اور علاقائی تنظیموں کی سرپرستی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ 1984ء میں جب طلبہ یونینوں پر پابندی لگائی گئی تھی اس وقت ملک سینتسویں برس میں تھا اور اس وقت تک یونینیں بھی تھیں اور سرخے بھی تھے۔ این ایس ایف، پی ایس ایف، پھر لبرلز بھی پیدا ہوگئے تھے لیکن ڈھاکا یونیورسٹی میں 1969ء میں پہلا طالب علم اسلامی جمعیت طلبہ کا عبدالمالک تھا جسے کسی یونین نے نہیں بلکہ بنگالی قوم پرستوں نے شہید کیا تھا۔ دوسرا قتل بھی 1981ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے حافظ اسلم کا تھا۔ انہیں بھی کسی طلبہ یونین نے نہیں ایک دہشت گرد تنظیم الذوالفقار کے غنڈے سلام اللہ عرف ٹیپونے قتل کیا تھا جو دو روز بعد پی آئی اے کا طیارہ اغوا کر کے کابل لے گیا تھا۔ اسی طرح تیسرا قتل 1984ء میں قدیر عابد جاوید کاہوا تھا جو غنڈوں کے دو گروہوں کے درمیان فائرنگ میں شہید ہوا۔ اس کی لاش لبرلز اپنے ساتھ لے گئے اور اپنا کارکن قرار دے دیا تھا۔ اس قتل کے وقت تک تعلیمی اداروں میں یونین الیکشن پر پابندی لگ چکی تھی۔ یہ سارے کام لسانی، علاقائی اور حکومتی سرپرستی میں قائم تنظیموں کی وجہ سے ہو رہے تھے۔ یونینیں تو منتخب ہوتی ہیں اگر ذرا سا بھی غلط کام کریں تو ان کا احتساب ہوتا تھا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا اور ان کے زیر اثر میڈیا نے طلبہ یونینوں کو اس کا ذمے دار قرار دیا تھا۔ پاکستان کی سیاست کا جو حال ہے اس کی روشنی میں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور اب پی ٹی آئی ایسا کوئی اقدام کرنے سے گریز ہی کریں گے۔ کیوں کہ ان کو اچھی طرح پتا ہے کہ طلبہ یونینوں کی وجہ سے جو قیادت ابھرتی ہے وہ بے باک، جری اور باصلاحیت ہوتی ہے۔ جو لوگ یہاں سے نکل کر سیاست میں آئے ان میں سے شاید ہی کوئی کرپشن کا مرتکب ہوا ہو۔یہ حکمران پارٹیاں اپنی پارٹیوں میں کسی ایسے فرد کو ہر گز برداشت نہیں کریں گی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ اب یونین الیکشن کی جگہ یہاں بھی سلیکشن کرا لیا جائے اور کہا جائے کہ یہ یونینیں بن گئیں جیسے پاکستان میں پارلیمنٹ بن گئی ہے۔جو لوگ اس پارلیمنٹ میں ہیں وہ بات تک نہیں کرسکتے کام کیا کریں گے۔ عمران خان صاحب عالمی سطح کی یونیورسٹیوں کے تجربے کی بات کررہے ہیں لیکن خان صاحب عالمی سطح پر تو صدر، وزیر اعظم ، آرمی چیف، وزراء وغیرہ سب ضابطوں کے پابند ہوتے ہیں آپ تو آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے لیے پارلیمنٹ کو مجبور کررہے ہیں۔ کیا اس معاملے میں عالمی سطح پر شہرت یافتہ ممالک کے تجربے سے استفادہ کیا گیا تھا؟؟ یہ سلیکٹڈ وزیر اعظم، الیکٹ ایبلز کی سیاست، یہ بھان متی کا کنبہ، یہ جعلی اور اصلی مقدمات کی بنیاد پر ووٹوں کی خریداری وغیرہ کون سے ترقی یافتہ اور شہرت یافتہ ملک سے سیکھے ہیں۔ اتنے کالے دھندے کرنے والے کس طرح طلبہ یونینوں کے انتخابات کروائیں گے۔