سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ میں کیا ہونے والا ہے

458

اٹھارویں آئینی ترمیم سے قبل سندھ ورکرز ویلفیئربورڈ سے سندھ کے محنت کشوں کو ڈیتھ گرانٹ، جہیز گرانٹ، اسکالر شپ، سیونگ مشین اور بائی سائیکلوں کی ویلفیئر اسکیموں کی مدمیں کروڑوں روپے کے مالی مراعات ملتے تھے۔ اس کے علاوہ رہائشی اور تعلیمی سہولیات کے ذریعے محنت کشوں کومزید شفاف فوائد ملتے رہتے تھے مگر اٹھارویں ترمیم کے بعد نہ صرف یہ ادارہ بلکہ سندھ کے تمام سہ فریقی ویلفیئر ادارے عملاً منافع بخش کاروباری ادارے بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ اٹھارویں آئینی ترمیم نہیں بلکہ اصل وجہ سندھ میں کرپشن کی شرح میں اضافہ ہونا ہے۔ جس کو حکومت شاید کنٹرول نہیں کرسکتی یا خود کرنا نہیں چاہتی؟ رائے عامہ کا خیال تو یہ ہے کہ انتظامی اداروں خصوصاً محکمہ لیبر کے ماتحت تمام اداروں میں ایماندار بیورو کریٹ کو تورہنے نہیں دیا جاتا۔ ایسے افسر کو پہلے تو ذہنی ٹارچر کیاجاتا ہے۔ اگر پھر بھی لائن پر نہیں آتا تو پھر اس کو کھڈے لائن لگادیا جاتا ہے اور نئے آنے والے سے معاملات پہلے ہی طے کرلیے جاتے ہیں۔ خاص طورپر سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی اور ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ
دونوں ادارے کرپشن کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ سیکرٹری سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ تو تین چار ماہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن جوافسر ویلفیئر اسکیموں کی فیصلہ کن قوت بنے بیٹھے ہیں ان کے خلاف پورے سندھ کے مزدور رہنماؤں کی طرف سے اور الیکٹرونک میڈیا پر سنگین الزامات عائد ہونے کے باوجود ان کے ٹیبل تک تبدیل نہیں ہوسکتے۔ دنیا نیوز اور آواز چینل پر تو بعض بیورو کریٹ کے خلاف بدعنوانی کی فلم چلائی گئی اور پھر حالیہ نیب سکھر اور وزیر محنت کے مابین تنازعے میں ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ کے جن بیورو کریٹ نے گھنائونا کردار ادا کیا ہے نہ صرف ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ وزیر محنت جیسے سیاستدان نے ان کا تحفظ کیا جس پر سننے والے حیرت زدہ رہ گئے۔ مگر وزیر محنت کو محسوس تک نہیں ہوا کہ اس واقعے کے اصل ذمہ دار وہ بیورو کریٹ بھی ہیں جنہوں نے ان کے احکامات کے بغیر یہ پروگرام بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بیورو کریٹ کئی سال سے ویلفیئر اسکیموں پر قابض رہ کر کرپشن کرنے کے ماہربن گئے ہیں اور ایسے ایسے طریقے سیکھ گئے ہیں کہ نئے آدمی کو یہ طریقے سیکھنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اس لیے کوئی کچھ بھی کہتا رہے یہی لوگ بورڈ کی اسکیموں پر قابض رہیں گے۔ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جہیز گرانٹ کی اسکیم صرف سکھر، لاڑکانہ میں کیوں چلائی جارہی ہے۔ جس پر ٹی وی چینل میں ایڈیشنل سیکرٹری لیبر سندھ انکوائری کی رپورٹ نشر ہوچکی ہے اورسکھر ٹریننگ سیکرٹریٹ انسٹریکٹر کو کراچی لال کوٹھی میں کیوں ویلفیئر اسکیموں کا کرتا دھرتا بنایا گیا ہے؟ کراچی حیدرآباد ، نوری آباد وغیرہ میں مزدوروں کے لیے تعمیرکردہ مکانات کی الاٹمنٹ سے پہلے مخصوص کارندے مکانات فلیٹس حاصل کرنے کے خواہشمند
مزدوروں سے ایڈوانس اور شناختی کارڈ وغیرہ لے کر گارنٹی دے رہے ہیں کہ مکان ان کو ہر حال ملے گا اور اس نئے بے لگام آزادانہ کرپشن کے لیے بورڈ میں مکان فلیٹس الاٹمنٹ کی کمپیوٹر ائز قرعہ اندازی کی پالیسی تبدیل کرکے سنیارٹی کی بنیاد پر الاٹمنٹ کافارمولہ بنایا جارہاہے تاکہ مزدوروں کے لیے تعمیر کردہ ان مکانات کو آزادانہ فروخت کرنے میں آسانی ہو۔ جب سے ورکرز ویلفیئر فنڈ قائم ہوا ہے تمام صوبوں اور مرکز میں کمپیوٹرائز قرعہ اندازی کے ذریعے بورڈ ممبران کے سامنے کمپیوٹرائز قرعہ اندازی ہوتی تھی اور فہرستوں پر تمام ممبران کے دستخط کیے جاتے تھے۔ اب سنا ہے کہ اس کہانی کو ختم کیا جارہاہے۔ سنیارٹی کی بنیاد پر پالیسی منظور ہونے کے بعد جس کو پیا چاہے وہ سہاگن ہو گی۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ سندھ میں نیب کا بہت چرچا ہے۔ مگر لوگ پوچھتے ہیں کہ نیب کی کارروائیوں سے کرپشن کہا ں کم ہوئی ہے وہ تو نظر نہیں آتا بعض اداروں کے تو آدھے بجٹ کرپشن کی نظر ہورہے ہیں۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہمیں توسعید غنی صاحب سے توقع تھی۔ مگر؟؟؟