ختمِ نبوت

650

سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کی نبوت ورسالت کی خصوصیات میں سے ایک آپ کا ’’خَاتَمُ الْاَنْبِیَائِ وَالرُّسُل‘‘ ہونا ہے، یعنی آپ کی نبوت پر ایمان اس بات کو لازم ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اور آخری رسول تسلیم کیا جائے، سو معاذ اللہ! اگر کوئی یہ کہے: میں آپؐ کو نبی اور رسول تو مانتا ہوں، لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اور آخری رسول نہیں مانتا، تو یہ دراصل آپ کی نبوت ورسالت کا انکار ہے اور ایسا شخص کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، (الاحزاب: 40)‘‘۔
عقیدۂ نبوت ورسالت کے موضوع پر گزشتہ کالموں میں یہ بیان کرچکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اِتمامِ حجت کے لیے نظامِ نبوت ورسالت قائم فرمایا، ارشاد ہوا: ’’ہم نے خوش خبری دینے اور ڈر سنانے والے رسول بھیجے تاکہ رسولوں (کی بعثت) کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کی بارگاہ میں کوئی (قابلِ قبول) حجت باقی نہ رہے، (النساء: 165)‘‘۔ نیز فرمایا: ’’اے اہلِ کتاب! بے شک رسولوں کی آمد میں وقفے کے بعد تمہارے پاس ہمارا رسول آگیا، جو تمہارے لیے (ہمارے) احکام بیان فرماتا ہے، مبادا تم یہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا نہیں آیا، پس بے شک تمہارے پاس ایک بشیر ونذیر آچکا ہے اور اللہ جو چاہے، اس پر قادر ہے، (المائدہ: 19)‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اب کسی نبی اور رسول کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی، کیونکہ خاتمُ النَّبِیّٖن سیدنا محمّد رسولُ اللہ ؐ کی بعثت کے بعد اللہ کے سارے بندوں پر اس کی حجت قائم ہوگئی اور کٹ حجت لوگوں کا یہ عذرِ لنگ بھی باقی نہ رہا کہ ہمارے پاس کوئی بشیر ونذیر نہیں آیا اور عہدِ حاضر میں تو کوئی ذی ہوش انسان اس حقیقت کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔
گزشتہ انبیائے کرامؑ اپنی قوموں کی طرف مبعوث ہوئے، اُن کی نبوت خاص قوموں اور محدود زمانے کے لیے تھی، اللہ کے دین کا ارتقائی عمل جاری وساری تھا، چنانچہ کسی نبی کی زبانی اللہ تعالیٰ نے تکمیلِ دین کا اعلان نہیں فرمایا، لیکن جب خاتَمُ النَّبِیّٖن سیدنا محمد رسول اللہؐ تشریف لے آئے، حجۃ الوداع کے موقع پر اور آپ کے وصالِ مبارک سے کچھ عرصہ پہلے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں تکمیلِ دین کا اعلان فرمادیا، ارشاد ہوا: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند فرمالیا ہے، (المائدہ: 3)‘‘۔ اب جبکہ دینِ اسلام مکمل ہوچکا اور اس کی بابت اللہ تعالیٰ کا حتمی اعلان جاری ہوچکا تو اب کسی جدید نبوت ورسالت کی ضرورت باقی نہیں رہی، اب تاقیامت سیدنا محمد رسول اللہؐ کی نبوت ورسالت ہی جاری وساری رہے گی۔
نیز قرآنِ کریم نے اس بات کو بھی واضح فرمادیا کہ آپؐ کی نبوت کسی خطے، زمانے یا قوم تک محدود نہیں ہے، بلکہ پوری انسانیت اور اللہ کی پوری مخلوق کے لیے ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (۱) ’’(اے رسولِ مکرم!) کہہ دیجیے: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، (الاعراف: 158)‘‘، (۲) ’’اور ہم نے آپ کو (قیامت تک کے) تمام لوگوں کے لیے ثواب کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے، (سبا: 28)، (۳) ’’نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے مکرم بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے (عذاب سے) ڈرانے والے ہوں، (الفرقان: 1)‘‘، (۴) ’’اور (اے نبی مکرم!) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے فقط رحمت بناکر بھیجا ہے، (الانبیاء: 107)‘‘۔
مزید یہ کہ تمام سابق انبیائے کرام سے عالَمِ ارواح میں یہ عہد لیا جاچکا ہے کہ جب اُن کو اپنی اپنی باری پر زمین پر انسانوں کی طرف نبی بناکر بھیجا جائے اور اگر وہ بالفرض آپؐ کا زمانہ پائیں تو وہ آپ پر ایمان لانے اور آپ کی نصرت کے پابند ہوں گے، یعنی آپؐ تمام نبیوں کے نبی اور رسولوں کے رسول ہیں اور یہ اقرار تمام انبیائے کرامؑ کی نبوت ورسالت کا لازمی حصہ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور یاد کیجیے! جب اللہ نے تمام نبیوں سے اُن کا عہد لیا کہ میں تمہیں جو کتاب وحکمت عطا کروں، پھر تمہارے پاس وہ عظیم رسول آئے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے، تو تم سب ضرور بالضرور اس پر ایمان لانا اور اُن کی مددکرنا، (پھر) فرمایا: کیا تم نے (اس عہد کا) اقرار کرلیا اور میرے اس بھاری عہد کو قبول کرلیا، ان سب نے عرض کیا: ہم نے اقرار کرلیا، (پھر) اللہ نے فرمایا: پس تم سب (ایک دوسرے پر) گواہ ہوجائو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں، (آل عمران: 81)‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابراہیمؑ نے تعمیرِ کعبہ کے بعد آپ کی بعثت کے لیے دعا کی جو قرآنِ کریم میں مذکور ہے، سیدنا عیسیٰؑ آپ کی آمد کی بشارت دیتے رہے اور قرآنِ کریم نے یہ شہادت بھی دی ہے کہ آپ کی بعثت سے پہلے بنی اسرائیل جنگ کے دوران دشمن کے دبائو میں آتے تو وہ نبی آخر الزماںؐ کے وسیلے سے دشمن پر فتح پانے کی دعائیں مانگتے تھے، کیونکہ تمام کتبِ سماوی میں آپ کی آمد کے بارے میں بشارات موجود ہیں، حدیث پاک میں ہے:
سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: نبی ؐ نے فرمایا: ’’تمہارے لیے وہ منظر کس قدر باعثِ افتخار ہوگا کہ (بنی اسرائیل کے نبی) عیسیٰ ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا، (مسند احمد)‘‘۔ یعنی سیدنا عیسیٰؑ کا قیامت قائم ہونے سے پہلے اس دنیا میں نزول ہوگا، لیکن وہ مستقل نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ آپ کے امتی کی حیثیت سے آئیں گے اور آپ کے امتی امام مہدی کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے، اگرچہ وہ حاکم ہوں گے لیکن آپ کے امتی کی حیثیت سے، حدیثِ پاک میں ہے: سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، عن قریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے، وہ عادل حکمران ہوں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کو ختم کردیں گے اور مال کو بہائیں گے حتیٰ کہ اس کو کوئی قبول نہیں کرے گا، (بخاری)‘‘، یعنی گمراہی کی تمام علامتوں کو مٹادیں گے اور ان کے دور میں مال کی اتنی فراوانی ہوگی کہ کوئی زکوٰۃ وصول کرنے والا نہیں ہوگا۔
کتب ِ لغت اس بات کی مؤیّد ہیں کہ الاحزاب: ۴۰ میں لفظِ ’’خاتم‘‘ تا کی زبر کے ساتھ ہو یا زیر کے ساتھ ہو، اس کے معنی ’’آخر‘‘ ہی کے ہیں اور تاجدارِ ختمِ نبوتؐ کے وصالِ مبارک کے بعد صحابۂ کرام کا جس مسئلے پر اجماعِ کُلّی قطعی منعقد ہوا، وہ یہی ہے کہ ’’خاتَمُ النَّبِیّٖن‘‘ کے معنی ’’آخِرُ النَّبِیّٖن‘‘ کے ہیں اور اس پر سَلَف سے خَلَف تک امت کا اجماع رہا ہے اور ہمارے نزدیک صحابۂ کرام کا اجماعِ کُلّی قطعی شریعت میں ’’حُجَّتِ قاطعہ‘‘ ہے اور اس کا انکار کفر ہے، اس لیے لفظِ خاتَم کے معنی میں کسی اور تاویل واحتمال کی بات کرنا ضلالت ہے، ذہنی وفکری کجی اور کفر ہے۔
(۱) سیدنا سعد بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ غزوۂ تبوک کے لیے نکلے اور (مدینہ منورہ میں) سیدنا علیؓ کو اپنا جانشین بنایا، سیدنا علی نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں (یعنی میں تو میدانِ جنگ کا شہسوار ہوں)، رسول اللہؐ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰؑ سے تھی، سوائے ایک استثناء کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا (یعنی ہارون نبی تھے، مگر علی! تم نبی نہیں ہو)، (بخاری)‘‘۔ (۲) سیدنا ابوہریرہں بیان کرتے ہیں: نبی ؐ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی سیاست (یعنی نظمِ اجتماعی کی تدبیر) اُن کے انبیائے کرام انجام دیتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہوجاتا تو اُن کی جگہ دوسرا نبی آجاتا، لیکن اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، سو میرے بعد خلفاء ہوں گے، (بخاری)‘‘۔ (۳) سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’رسالت اور نبوت کا سلسلہ بند ہوچکا، پس میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی، (سنن ترمذی)‘‘۔ (۴) سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اُس شخص کی سی ہے: جس نے ایک نہایت حسین وجمیل گھر بنایا، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی، پس لوگ اس گھر کے گرد چکر لگاتے ہیں اور اس کے فنِ تعمیر پر حیرت زدہ ہوکر کہتے ہیں: کاش کہ اس جگہ یہ اینٹ لگادی گئی ہوتی (تو پھر اس عمارت میں کسی زاویے سے کوئی نَقص باقی نہ رہتا، یہ ہرجہت سے باکمال ہوتی)، آپ ؐ نے فرمایا: سو (عمارتِ نبوت کی وہ آخری) اینٹ میں ہوں اور میں خَاتَمُ النَّبِیّٖن ہوں، (بخاری)‘‘۔
ختمِ نبوت کے موضوع پر صحیح احادیث بکثرت ہیں، حدِ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں، بعض علماء نے ان کی تعداد دو سو سے متجاوز ذکر کی ہے اور شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے ختمِ نبوت کے موضوع پر مکرّرات کو حذف کر کے پچاس صحیح احادیث اصل حوالہ جات کے ساتھ تبیان القرآن میں نقل کی ہیں۔ صحابۂ کرام کا بالاجماع انکارِ ختمِ نبوت کو کفر وارتداد قراردینے کا ثبوت یہ ہے کہ جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ ٔ کذاب کو مرتد قرار دیا گیا، اس کے خلاف جہاد کرکے اُسے کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا اور کسی ایک صحابی کا اختلاف بھی اس حوالے سے ثابت نہیں ہے۔ یہاں ہم نے عقیدۂ ختمِ نبوت کی عام فہم تشریح کی ہے جو اوسط تعلیمی استعداد رکھنے والے کو بھی بآسانی سمجھ میں آجائے۔ لفظِ ’’خَاتم‘‘ کے لغوی معانی اور ان کے اطلاقات، توفّی کے معانی اور اُن کے اطلاقات اور رفعِ عیسیٰ ونزولِ عیسیٰؑ، نیز مصلوب نہ ہونے اور تشبیہ کی بحثیں کمرۂ تدریس کے مسائل ہیں، عام قاری کو ان میں الجھانا نہیں چاہیے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اللہ کی تقدیر سے اپنی چارج شیٹ (فردِ جرم) خود ہی مرتب کرلی تھی اور اسی کے ذریعے 1974میں پاکستانی پارلیمنٹ مکمل اتفاقِ رائے سے اس نتیجے پر پہنچی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مستقل یا ظلّی وبروزی نبی یا مجدّد یا مسلمان ماننے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہے، دستورِ پاکستان کی دوسری ترمیم یہی ہے۔