ارمان اسکول کی 43سال بعد “بچھرے ساتھی ملن “کی تقریب”

974

ہمارے معاشر ے میں چند روایات ایسی بھی ہیںجن کوعملی طور پر صرف فلموں ،ڈراموں، افسانوں اورکہانیو ںتک محدو دکر د یا گیا ہے اورعملی زندگی ایسی دوستی اور محبت کم کم ہی نظر آتی ہے ، لیکن انسانی تاریخ کی صدیوں گزرنے کے باوجود بھی آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کی وجہ سے محبت کی تازگی برقرا ر اور جب تک انسانوں کو یہ یاد رہے گا کہ
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان

اُس وقت تک انسانوں کی محبت برسوں گزرنے کے بعد بھی بر قرار اور جاری ساری رہے گی ،محبتوں کے اسی سفر کو ارمان اسکول کے 43سال قبل کے سابق طلبہ نے دوبارہ شروع کر کے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے اور دنیاکو بتا دیا ہے کہ
دوستی کا کو ئی مطلب نہیں ہو تا ،اور جس دوستی کا مطلب ہوتا ہے وہ بہت جلد دشمنی میں تبدیل ہو جاتی ہے
نومبر 16کو 2019 ء کی شب کراچی کے مقامی ہو ٹل میں ارمان اسکول کے میزبان سمیت 14افراد 43سال بعد اپنے ساتھیوں منور حسین ارمانی اور شمیم انور ارمانی کی مشترکہ کوشش کے نتیجہ میں “بچھرے ساتھی ملن “کی تقرب کا انعقاد کیا گیا ،ارمان اسکو ل کے یہ تمام دوست مئی 1976ءکے میٹرک کے امتحان کے بعد کم از کم 8سے 10 سال ساتھ رہنے والے دوست ایسے بچھرے کہ کبھی خوابوں میں بھی نہیں مل سکے۔

تقریب میں دیگر شرکاءمیں عتیق الرحمان، ارشد ارمانی ،اشتیاق عالم ،شاہد چوہدری ، شاہ مطیع الرحمان ،ارشد افتخار ،مشتاق احمد،شکیل چشتی ،انعام رضا ،مسعود احمد خان،سہیل اقبال اور سید جاوید باسط شامل تھے ۔ارمان اسکول کے بانی سربراہ ارمان صاحب اور ان کے گھرانے 1947ءمیں قیام پاکستان کے بعد کراچی کی ویران علاقے جہاں ایک جنگل اور فارسٹ دفتر کے سو کچھ نہ تھا،ماڈل کالونی میں اپنا پڑاو¿ ڈالا اور اپنا چھوپڑا بنا نے کے بعد انھوں اسی ماڈل کالونی میں اپنے گھر کے برابر ایک پلا ٹ خرید کر وہاں اینٹوں کے درمیان تختہ رکھ کر علم کا چراغ روشن کیا

اپنے اسی  ارمانوں بھر ے اسکول کا نام “ارمان اسکول “رکھا ارمان صاحب کے اس کام میں ان کے ساتھ ان کے بیٹے اسد علی اور طاہر علی بھی شامل تھے اور شوق کا یہ سفر اُس وقت تک جاری رہا جب تک نجی اسکولوں کو بھٹو صاحب نے سرکاری تحویل میں نہیں لے لیا ۔اسکول سرکاری تحویل میں جانے کے بعد بھی ارمان صاحب اور ان کے دونوں بیٹوں نے اپنے والد کے روشن چراغ کو مدہم نہیں ہو نے دیا ،اس اسکول میںماڈل کالونی ، ملیر، کالابورڈ ،ملیر ہالٹ ،اور ارد گرد کے طلبہ پڑھتے تھے اور اسی وجہ 1976ءجولائی کو میٹرک کر نے والے طلبہ کی اکثریت کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا ۔یہ وہ دور تھا جب میٹرک کے عام طور پر نوجوانوں کو غم ِ روزگار کی فکر دامن گیر ہو جاتی تھی
اسی فکر کی وجہ سے ارمان اسکول کے تما م طلبہ بھی میٹرک کے بعد ایسے الگ ہو ئے کہ کہ پھر 43سال بعد 19نومبر کو دوبارہ مل سکے ۔اس “بچھرے ساتھی ملن “کی تقریب کے انعقاد کی خوہش تو شاید سب کو تھی لیکن منور حسین ارمانی اور شمیم انور ارمانی کی دن رات کی کوششوں سے 43سال کا خواب حقیقت میں تبدیل ہو گیا ۔43سال بعد ملنے والوں کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی اور ان تمام کو دیکھ کر احسا س ہو تا تھا یہ تمام کے تمام لوگ 43سال قبل واپس لو ٹ گئے ہیں ۔ اس موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہو ئے تما م دوستوں ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ معلوم کیا اور ماضی کی باتیں وہ اس طرح کر رہے تھے جیسے 43سال قبل کی نہیں بلکہ کل کی باتیں ہو رہی ہیں
اس تقریب کی نمایاں خصوصیات یہ کہ اس میں شرکت کر نے والے ارمان اسکو ل کے سابق طلبہ کی عمریں 55سے 60سال کے درمیان تھیں لیکن تمام شرکاءاپنے اساتذہ کو بہت یاد کر رہے تھے۔اس دوران ارمان صاحب ،اسدعلی ارمان ،طاہر ارمان ،بے بی ارمان سمیت عبدالشکورصاحب،فیض صاحب ،صبیحہ باجی ،عظمت باجی،نسیم کاظمی  شہناز باجی ،وظیم صاحب اور نسیم زہرہ شامل ہیں اب تک کی اطلاعات کے مطابق عبدالشکور صاحب حیات ہیں اور اللہ ان پر اپنا کرم فرمائے
آ ج کی اِس قدر مصروف زندگی میں لوگوں کو کل کے دوستوں کی خبر نہیں ہو تی 43سال کی دوستی کو زندہ کر نے والے دوستوں نے کمال کر دیا اور انسانوں سے امید کر تے ہیں کہ وہ بھی 43سال قبل نہ سہی آج کے دوستو ں کو یاد کر لیا کریں ۔آ پ کے اس عمل سے آپ کو بھی خوشی ہو گی

ارمان اسکول کے طلبہ منور حسین،مشتاق احمد،کامل اور سید جاوید باسط کا43 سال پرانا گروپ فوٹو

اور دوستوںکو بُڑھاپے کی تنہائی کے عذاب بھی نجات مل جائے گی