احتساب!!! موسم بدلا رُت گدرائی؟

415

قومی احتساب بیورو کے چیرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی ہم سے توقع نہ رکھے کہ وہ ارباب اختیار کی صف میں ہے یا صاحب اقتدار ہے تو نیب اس کی طرف سے آنکھیں بند کرکے رکھے گا ایسا نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہم نے ان کیسز پر توجہ مرکوز کی جو تیس پینتیس سال سے زیر کار تھے مگر ان پر ایکشن برائے نام تھا اب ہم دوسرے محاذ کی طرف جا رہے ہیں کہ جہاں اس تنقید کا بھی ازالہ ہوجائے گا کہ انہیں احتساب یک طرفہ نظر آتا ہے۔ چیرمین قومی احتساب بیورو نے یہ خطاب کرکے اب حکومت کی صفوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ دہائیوں سے قومی وسائل اور ریاست کے اختیار اور عوام کے تفویض کردہ اقتدار کے ساتھ جو سلوک ہوا اس نے ہمہ گیر احتساب اور قانون کی یکساں اور بلاتفریق حکمرانی کی ضرورت بڑھا دی تھی۔ اس ملک میں مرضی کا انصاف، مرضی کا احتساب اور نظریہ ضرورت کا اطلاق تو ہر دور میں ہوا مگر بے لاگ احتساب اور قانون کی حکمرانی کا نفاذ نہ ہو سکے۔ اسی لیے قانون مکڑی کا ایسا جالا رہا ہے جس میں کمزور تو پھنس کر رہ جاتا مگر طاقتور اس جالے کو توڑ کر نکل جاتا۔ مدت دراز سے پاکستان میں یہی کھیل چلتا رہا۔ حکمران ِ وقت خود کو احتساب اور جواب دہی سے مبرا اور آزاد سمجھتے رہے۔ ماضی قریب کی عدالتوں کو حکمرانوں کو قانون کے دائرے میں لانے اور کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔ اس سے پہلے تو حکمران قانون کو موم کی ناک سمجھتے تھے اور قانون بھی حکمران وقت کے آگے بولنے اور دیکھنے کی صلاحیت کھو دیتا تھا۔ حکمران اس خبط میں مبتلا تھے کہ ان کا احتساب صرف انتخابات میں ہوتا ہے اور وہ صرف انتخابی مہم میں عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ انتخابات سے انتخابات کے پانچ سالہ سفر میں کوئی عدالت اور کوئی ادارہ ان سے پوچھ گچھ کی جرات نہیں کر سکتا۔ یہ ایک مائنڈ سیٹ تھا جو حکمرانوں کو غلطی در غلطی کے سفر پر گامزن رکھتا تھا۔ ہمہ وقت احتساب اور قانون کی نظروں میں رہنے کا احساس حکمرانوں کو غلطیوں سے دوررکھتا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو بدلنے کی کوشش تو کی گئی مگر ابھی تک یہ ذہنیت اپنا اثر برقرار رکھے ہوئے ہے۔
قومی احتساب بیورو کے چیرمین جسٹس جاوید اقبال جس انداز سے احتساب کے نظام کو منظم اور فعال بنائے ہوئے ہیں وہ ایک اچھی ابتدا ہے۔ ابھی تک ان کی سرگرمیوں کو صرف ایک طبقے یعنی ماضی کے حکمرانوں کے احتساب سے تعبیر کیا جاتا تھا اور ماضی کے حکمران یہ کہتے تھے کہ صرف ہمارا ہی احتساب کیوں؟۔ کچھ لوگ مطالبے کے انداز میں کہہ رہے تھے کہ ’’احتساب سب کا‘‘۔ اب اسی سوال کا جواب چیرمین نیب کی طرف سے دیا گیا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ اب وہ ماضی کے احتساب کا بوجھ اتارنے کے بعد موجودہ حکمرانوں کی طرف مڑنے والے ہیں اور اس طرح وہ احتساب کو بے لاگ اور ہمہ جہت بنانے کی راہ پر گامزن ہیں جو احتساب کا نعرہ لگانے والوں کا مقصد رہا ہے۔ موجودہ حکمرانوں میں بھی ماضی کے ایسے کردار شامل ہیں جن کا دامن بے داغ ہر گز نہیں بس صرف نظریہ ضرورت کے تحت عمران خان نے انہیں اور ان نشان زدہ سیاسی عناصر نے عمران خان کو گوارا کیا تھا۔ اب یہ حکومت کا امتحان بھی ہے کہ وہ سیاسی اور حکومتی مصلحتوں کے تحت بدعنوان عناصر کو اپنے پروں تلے چھپا کر احتسابی عمل کو بھول بھلیوں میں ڈال دیتی ہے یا احتسابی عمل کے آگے سپر ڈال کر خود سپردگی اختیار کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی موجودہ حکومت کے نئے چہروں کے افعال و کردار اور شکایات کا جائزہ لینا بھی ناگزیر ہے۔ احتساب ایک مسلسل عمل ہے۔ اس سے جمہوریت کمزور نہیں ہوتی اور نہ عوام کی حکمرانی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے بلکہ احتساب نہ ہونے سے کرپشن کا کلچر فروغ پاتا ہے اور جمہوریت کا کرپشن سے منسوب ہوجانا جمہوریت کے لیے خطرات کا باعث بنتا ہے۔ چند سال قبل اسرائیل کی پولیس ہر دوسرے روز وزیر اعظم نتین یاہو اور ان کی بیوی سے پوچھ گچھ کرنے پہنچ جاتی تھی۔ ہمارے ہاں جمہوری حکمرانوں سے پوچھ گچھ سے جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور عوامی نمائندوں کی نازک انا زخمی بلکہ انا کا شیشہ کرچی کرچی ہو کر بکھرنے لگتا ہے۔ حقیقت میں ہم نے جمہوریت کو جاگیردارانہ تقدس کا جامہ پہنا رکھا ہے۔ پوچھ گچھ، جواب دہی سے اس کی شان آن اور بان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ چونکہ ہم جاگیرداری معاشرے میں سانس لیتے ہیں اس جمہوریت میں بھی جاگیردارانہ تمکنت اور کروفر چاہتے ہیں۔ ماضی کی کتاب بند ہوجائے تو اب حکومت وقت کے احتساب کا رواج عام ہونا چاہیے۔
چیرمین نیب نے ہوائوں کا رخ بدلنے کی بات کرکے احتساب کے نظام پر اُٹھنے والے سوالات کا جواب فراہم کر دیا ہے۔ حکومت وقت کا احتساب قانون کی حکمرانی کے کمزور تصور کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ چیرمین نیب نے جو کہا ہے اب اس پر عمل ہوتا نظر آئے تو یہ پاکستان کے تبدیل ہونے کی ابتدا ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستانی عوام نے وعدوں اور تسلیوں کے حوالے سے اس قدر دھوکے کھائے ہیں کہ اب وہ لفظوں کی حرمت پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ ان کے خواب ہمیشہ سراب ثابت ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے چیرمین احتساب بیورو کو لفظوں کی حرمت اور تقدس کو بحال کرنے کے لیے عمل کے میدان میں کام کرکے دکھانا ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے دوسرے محاذ کا پہلا شکار کون قرار پاتا ہے؟۔ سردست تو ہوائوں کا رخ بدل جانے کی نوید پر ظہیر کاشمیری کے اس شعر میں ہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ
موسم بدلا رُت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے